تصحیح وقتِ پیدائش – برتھ ٹائم ریکٹی فیکیشن

0
1280
birth-time-rectification

آسٹرولوجر کو کئی بار ایسے کلائنٹ یا دوستوں کا زائچہ بنانے کی درخواست موصول ہوتی ہے، جن کا وقتِ پیدائش کسی اندازے یا قیاس آرائی پر مبنی ہوتا ہے، یا سرے سے دستیاب ہی نہیں ہوتا۔ تنجیمی احکامات کا انحصار درست زائچے پر ہے۔ اور درست زائچے کا انحصار درست وقتِ پیدائش پر ہے۔ جب زائچہ ہی غلط وقت کا بنایا جائے گا تو پیش گوئی کیسے صحیح ثابت ہوگی؟

تصحیح وقتِ ولادت کے موضوع پر اردو زبان میں آسان اور عملی ہدایات موجود نہیں۔ اگرچہ قدیم عربی کتب میں النمودار اور استقرارِ حمل (prenatal_epoch)، جبکہ سنسکرت کتب میں لگن شُدھی، نشٹ جاتکم اور آدھان کنڈلی جیسے عنوانات موجود ہیں۔ لیکن عام قاری کے لیے انھیں قدیم کتب سے براہِ راست سمجھنا آسان نہیں۔ اس تحریر میں تصحیح وقتِ ولادت کے موضوع کو سادہ انداز اور عملی مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

مسئلہ کیا ہے؟

ہمارے ہاں نامعلوم اور مبہم وقتِ پیدائش کا مسئلہ عرصہ دراز سے موجود ہے۔ کیونکہ پاکستان بطور مجموعی ایک غیر دستاویزی معاشرہ (non-documented_society) ہے۔ پابندیِ وقت، ڈائری لکھنا، احوال رقم کرنا، رسید لینا دینا، معاہدہ تحریر کرنا، اپنے دستخط کے نیچے تاریخ اور وقت لکھنا، کاغذات سنبھال کر جمع کرنا، لکھت پڑھت وغیرہ پاکستانی عوام کے رویوں میں شامل نہیں۔ بس اندازوں اور یادداشتوں سے کام چلایا جاتا ہے۔ بلکہ جب موقع ملے ان اندازوں میں مبالغہ آرائی سے گریز نہیں کیا جاتا۔ دوسری جانب حکومتی ادارے بھی عرصہ دراز تک معاشرتی معاملات کو دستاویزی نہ بناسکے۔ اس کے برعکس آپ مغربی معاشروں کو دیکھیے، وہاں کوئی حقائق (تاریخ اور وقت) سے چھیٹر چھاڑ نہیں کرتا، اور نہ انھیں ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو یہ من چلے کا سودا ہے۔

پاکستانیوں کے میٹرک سرٹیفیکیٹ، شناختی کارڈ اور نکاح ناموں میں سب سے زیادہ گمراہ کن تاریخ پیدائش یکم جنوری ہوتی ہے۔ یا پھر کسی بھی مہینے کی پہلی تاریخ۔ پاکستان میں جتنے لوگ ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو پیدا ہونے کے دعوے دار ہیں، اس قدر دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں پائے جاتے۔ شاید آپ نے غور نہ کیا ہو لیکن آپ کے کئی احباب ایسے ہوں گے جن کی تاریخ پیدائش، سرکاری کاغذات میں یکم جنوری، یکم فروری، یکم مارچ، یکم جولائی وغیرہ لکھی ہوگی۔ ظاہر ہے یہ نامعلوم تاریخ پیدائش کی خانہ پوری کے لیے کسی ہوشیار چاچے مامے یا منشی کی خام خیالی ہوتی ہے۔ کیونکہ اس طرح عمر معلوم کرنے کے لیے زیادہ حساب کتاب کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایسا نہیں کہ کوئی شخص پہلی تاریخ کو پیدا نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کا احتمال (probability) بہت ہی کم ہے۔ کچھ یار دوست تو حب الوطن بننے کے چکر میں اپنے لیے 14 اگست یا 23 مارچ کی تاریخ پیدائش ایجاد کرلیتے ہیں۔ یعنی اپنی نامعلوم تاریخ پیدائش کو اہم قومی تاریخوں سے منسوب کر لیتے ہیں۔ سالگرہ منانے کے لیے تو یہ خوب انتخاب ہے، لیکن زائچہ بنانے کے لیے یقیناً گمراہ کن مواد ہے۔ کیونکہ غلط تاریخ پیدائش کا مطلب ہے غلط زائچہ۔

بوقت فجر پیدائش کا دعویٰ

نامعلوم وقتِ پیدائش کے حوالے سے سب سے معروف تُکا (wild-guess) صبح فجر کا وقت ہے۔ ایسے پاکستانی افراد جن کی عمریں تیس، چالیس یا پچاس برس کے آس پاس ہیں یا اس سے زائد ہیں۔ اُن میں سے بیشتر علیٰ الصبح یا فجر (early_dawn) کے وقت پیدا ہونے کے دعوے دار ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں، جن کے برتھ سرٹیفکیٹ موجود نہیں اور نہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی تحریری شہادت موجود ہوتی ہے۔ اس کے باوجود یہ تواتر سے سنا جانے آنے والا عوامی دعویٰ ہے: “برتھ سرٹیفکیٹ تو موجود نہیں، لیکن امی بتارہی تھیں کہ میں صبح فجر میں پیدا ہوا ہوں”۔ کلائنٹ کی جانب سے یہ گمراہ کن جملہ ہر پاکستانی آسٹرولوجر نے بارہا سنا ہوگا۔ شاید اس دعوےکی وجہ علیٰ الصبح سے منسوب روایتی سعادت ہے۔ پاکستان میں ہر دوسرا شخص لاشعوری طور پر اپنے آپ کو کسی نہ کسی روایتی تقدس سے منسلک کرنا چاہتا ہے (چاہے وہ پیدائش کا وقت ہو یا وفات کا دن)۔ ایسا نہیں کہ صبح کے وقت پیدائش ممکن نہیں۔ بلکہ انسانوں اور جانوروں میں فطری انداز سے پیدائش کا امکان شب اور صبح کے وقت (بعد طلوع آفتاب) قدرے زیادہ ہوتا ہے (خصوصاً non-cesarean_delivery)۔ لیکن پاکستان میں جتنی بڑی تعداد علیٰ الصبح پیدا ہونے کی دعوے دار ہے وہ عالمی اوسط سے بہت ہی زیادہ ہے۔ لہٰذا بیشتر کا دعویٰ غلط ہے۔

اس دعوے کے رد میں ثبوت یہ کہ نئی نسل کے نومولودوں نے علیٰ الصبح یا بوقتِ فجر پیدا ہونا کیوں بند کردیا؟ اپنے کمپیوٹر یا موبائل میں موجود نئی نسل کے بچوں کے زائچہ پیدائش پر غور کیجیے (یعنی وہ نومولود بچے جو گذشتہ چندبرسوں میں پیدا ہوئے ہیں، اور نارمل ڈیلیوری سے پیدا ہوئے ہیں)۔ ان میں سے شاید ہی کوئی علیٰ الصبح یا فجر (قبل طلوع آفتاب) پیدا ہوا ہو۔

کاغذات میں غلط سالِ پیدائش

پاکستان میں اس حوالے سے ایک اور مسئلہ بھی موجود ہے ۔ وہ یہ کہ عوام و خواص اپنا حقیقی سالِ پیدائش جان بوجھ کر چھپاتے ہیں۔ جس کی وجہ معاشی مجبوری اور سماجی بندھن ہے۔ والدین اپنے لڑکوں کا سالِ پیدائش کاغذات میں دو تین برس کم لکھواتے ہیں، تاکہ سرکاری نوکری کے حصول میں آسانی رہے۔ جبکہ لڑکیوں کا سالِ پیدائش اس لیے کم لکھواتے ہیں کہ انھیں رشتہ ملنے میں مشکلات نہ ہو۔ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں شناختی کارڈ اور نکاح نامے پر غلط سالِ پیدائش لکھوانے کا رواج بہت عام ہے۔ عوام تو عوام، خواص بھی کچھ کم نہیں۔ بالخصوص ایسے افراد جو سرکاری ملازمت کے حصول کے خواہاں ہوں (کیونکہ وہاں کوٹہ سسٹم کے علاوہ عمر کی حد بندی بھی ہوتی ہے)۔ پاکستان کے بیشتر سرکاری افسران، اعلیٰ عسکری حکام اور سیاستدانوں کا سالِ پیدائش کاغذات میں کچھ اور تحریر ہوتا ہے اور حقیقت میں کچھ اور ہوتا۔ مثال کے طور پر جنرل ایوب خان نے خود اپنی سوانح حیات میں تسلیم کیا کہ ان کا اصلی سالِ پیدائش سرکاری دستاویزات میں تحریر (غلط) سالِ پیدائش سے 2 برس پہلے کا ہے۔

کاغذات میں سالِ پیدائش جو بھی لکھا ہو۔ آسٹرولوجر کو ہمیشہ درست سالِ پیدائش بتائیے۔ نجومی کو غلط سالِ پیدائش بتانا، غلط وقتِ پیدائش بتانے سے بھی بڑا جرم ہے۔ یعنی یہ وہ غلطی ہے جس سے سارا زائچہ یکدم اپنی وقعت کھو دیتا ہے۔ مبہم وقتِ پیدائش میں کم سے کم چندر کنڈلی کا نقشہ تو قائم دائم رہتا ہے۔ لیکن غلط سالِ پیدائش کی بنیاد پر بنا زائچہ سرے سے مختلف ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں (بجز شمس) تمام سیارگان کی پوزیشن بدل جاتی ہے۔ غلط سالِ پیدائش کی بنیاد پر زائچہ بنانے سے بہتر ہے کہ زائچہ ہی نہ بنایا جائے۔

وقتِ پیدائش کا ماخذ

ماخذ (source) سے مراد یہ کہ وقتِ پیدائش کا ثبوت، حوالہ یا ذریعہ کیا ہے؟ وقت پیدائش کیسے معلوم ہوا، یعنی یہ معلومات مولود تک کس طرح پہنچی۔ وقت پیدائش کے ماخذ کئی قسم کے ہوسکتے ہیں۔ اول تحریری ثبوت (written_evidence) مثلاً اسپتال کا برتھ سرٹیفکیٹ، والد کی ڈائری یا پرانے کاغذات میں درج وقتِ پیدائش کی تحریری شہادت وغیرہ۔ یا پھر زبانی کلامی روایت مثلاً والدین کی یادداشت پر مبنی وقت۔ یا ہوسکتا ہے کہ کلائنٹ نے اپنا وقتِ پیدائش خود ہی اندازاً تصور کر لیا ہو۔ یا اپنے مبہم وقتِ پیدائش کو کسی ماہر نجومی کے ذریعے درست (rectified) کروایا ہو۔

گذشتہ صدی میں کینیڈا کی ایک محقق خاتون اور نجومی لوئی روڈن(Lois Rodden) نے وقتِ پیدائش کے ماخذ کی درجہ بندی کا ایک نظام وضع کیا۔ اس نظام کو روڈن ریٹنگ سسٹم (Rodden Rating System) کہتے ہیں۔ اب اس ریٹنگ سسٹم کو کئی آسٹرولوجی فورم اور آسٹرولوجی سوفٹ ویئر میں شامل کرلیا گیا ہے۔ روڈن سسٹم کے تحت درست وقتِ پیدائش کے چھ درجات ہیں: AA, A, B, C, D, X ۔اس ریٹنگ کی مدد سے آسٹرولوجر کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ زائچہ کی صحت اور درستی کا معیار اور درجہ (گریڈ) کیا ہے۔ اور اس پر کس حد تک اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ روڈن ریٹنگ سسٹم کے درجات کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

ڈبل اے ریٹنگ: اگر مولود کے پاس برتھ سرٹیفکیٹ ہو یا وقتِ پیدائش کی اصلی تحریری شہادت موجود ہو تو زائچہ کی روڈن ریٹنگ AA ہوگی۔

اے ریٹنگ: اگر مولود کا وقتِ پیدائش خود اس کے اپنے ذرائع، یا قریبی خاندانی ذرائع سے حاصل ہوا ہو تو زائچہ کی روڈن ریٹنگ A ہوگی۔

بی ریٹنگ: اگر وقتِ پیدائش کا ماخذ مولود کی خودنوشت یا سرگرشت ہو۔ یا پیدائش کے وقت بیان کیا گیا اہم متوازی واقعہ، جسے خود مولود یا اس کے گھر والے بتائیں (مثلاً اس وقت گاؤں سے گزرنے والی شام کی ٹرین کی سیٹی بجی تھی؛ عشا کی اذان ہورہی تھی؛ والد صاحب صبح دفتر کے لیے نکل چکے تھے؛ وغیرہ وغیرہ)۔ ایسی صورت میں زائچہ کی روڈن ریٹنگ B ہوگی۔

سی ریٹنگ: اگر وقتِ پیدائش کا تحریر ی ثبوت نہ ہو اور نہ ہی مولود کے قریبی ذرائع سے زبانی ماخذ معلوم ہو۔ بلکہ وقت کسی رسالے یا میگزین میں اندازاً بتایا گیا۔ یا کسی نجومی نے ازخود ایسے مولود کا وقتِ پیدائش نکالا ہو جس سے اس کا اپنا رابطہ نہ ہوتو ایسے زائچہ کی روڈن ریٹنگ C ہوگی۔

ڈی ریٹنگ: اگر وقتِ پیدائش سے متعلق ایک سے زائد متصاد دعوے ہوں، جس کا ماخذ نہ تو مولود خود ہو، نہ اس کی سرگزشت ہو، اور نہ قریبی خاندانی ذرائع ہوں تو ایسے زائچہ کی روڈن ریٹنگ D ہوگی۔

ایکس ریٹنگ: اگر وقتِ پیدائش سرے سے معلوم ہی نہ ہو۔ اور نہ ہی اس کا کوئی سراغ ملے تو ایسے زائچہ کی روڈن ریٹنگ X ہوگی۔ چونکہ وقتِ پیدائش کی عدم موجودگی میں طالع نہیں نکل سکتا ۔اس لیے زائچے کے معلوم نہیں ہوسکتے۔ انٹرنیٹ پر موجود کئی مشہور شخصیات اور مشاہیر عالم کے زائچے ایکس ریٹنگ کے ہیں۔ یعنی نہ تو ان کی حتمی تاریخ پیدائش معلوم ہے اور نہ ہی یقینی وقتِ پیدائش معلوم ہے۔

ہاسپٹل برتھ سرٹیفکیٹ

واضح رہے اسپتال کا اصلی برتھ سرٹیفکیٹ ایک بہت اہم اور قابلِ اعتبار دستاویز ہے۔ میونسپل کارپوریشن یا گورنمنٹ برتھ سرٹیفکیٹ جو بعد میں بنتا ہے، اُس میں عام طور پر صرف تاریخ، مہینہ، اور سال درج ہوتا ہے لیکن وقتِ پیدائش نہیں لکھا ہوتا۔ نیز حکومتی برتھ سرٹیفکیٹ میں جعلسازی کی گنجائش ہوتی ہے۔ بعض لوگ تو ویزے کے چکر میں جوانی میں جا کر اپنا نیا سرکاری برتھ سرٹیفکیٹ بنواتے ہیں۔ اس کے برعکس اسپتال کے برتھ سرٹیفکیٹ میں نہ صرف درست وقتِ پیدائش درج ہوتا ہے، بلکہ حقیقی تاریخ، مہینہ، سال بھی موجود ہوتا ہے۔ کبھی کبھار اسپتال کے برتھ سرٹیفکیٹ میں درج وقت پیدائش، حقیقی وقتِ پیدائش (real_time_of_birth) سے چند منٹ آگے ہوسکتا ہے۔ کیونکہ بوقت پیدائش، پچے کی پہلی سانس یا رونے کا وقت نوٹ کرنے اور لکھنے میں چند منٹ کی تاخیر ممکن ہے۔ جس کی عمومی وجہ لیبر روم (زچہ خانہ) میں موجود اسٹاف، نرس یا دائی کی مصروفیت یا غفلت ہوتی ہے۔ اس کے باوجود یہ فرق پانچ دس منٹ سے زائد نہیں ہوتا۔ اس لیے اسپتال کے برتھ سرٹیفکیٹ میں درج وقتِ پیدائش کی تصحیح (rectification) قدرے آسان ہوتی ہے۔

شک کا دائرہ اور چند سوال

بطور نجومی سب سے پہلے تو آپ کو کلائنٹ سے اس کے وقتِ پیدائش کا ماخذ پوچھنا چاہیے کہ حضرت آپ جو اپنا وقتِ پیدائش بتارہے کہ آیا یہ وقت اسپتال سے جاری برتھ سرٹیفکیٹ میں لکھا ہے؛ والد کی نوٹ بک میں درج ہے؛ والدہ کی زبانی یادداشت پر مبنی ہے؛ آپ کا اپنا گمان ہے؛ یا کسی دوسرے آسٹرولوجر نے وقتِ پیدائش، درست (rectified) کر کے آپ کو بتایا ہے۔

پہلی صورت: میرا تجربہ ہے کہ اگر بتائے گئے وقتِ پیدائش کا ماخذ تحریری شہادت (written_record) پر مبنی ہو، اور اس وقتِ پیدائش میں پورے، سوا، ساڑھے، پونے کا لفظ شامل نہ ہو (یعنی quarter_of_clock نہ ہو) تو تصحیح وقتِ ولادت کی زیادہ ضرورت نہیں۔ یہاں quarter_of_clock سے مراد یہ کسی بھی گھنٹے کا پورے، سوا، ساڑھے، پونے ہے۔ جیسے چھ بجے، سواچھ بجے، ساڑھے چھ بجے، پونے سات بجے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کسی حد تک اندازاً وقتِ پیدائش کی مثالیں ہیں۔ ایسے وقتِ پیدائش میں چند منٹوں کی تصحیح کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔
مثال: اگر ایک شخص نے کہا کہ میرا وقت پیدائش صبح 10:23 ہے۔ تو بادی النظر میں یہ اعتبار کے لائق وقتِ پیدائش ہے۔ کیونکہ 10:23 نہ تو سوا دس بجے (10:15) ہے۔ اور نہ ساڑھے دس بجے (10:30) ہے۔ تاہم اگر یہاں بیان کیے گئے وقت صبح 10:23سے پچھلے منٹ 10:22 یا اگلے منٹ 10:24 پر نوانش لگن بدل رہا تو ایک آدھ منٹ کی تصحیح (rectification) بہرحال ضروری ہوجاتی ہے۔

دوسری صورت: اگر بیان کیاگیا وقتِ پیدائش، تحریری شہادت پر ہی مبنی کیوں نہ ہو لیکن وقتِ پیدائش کسی بھی گھنٹے کا پورے، سوا، ساڑھے، پونے ہے تو اس میں شک کی گنجائش موجود ہے۔
مثال: ایک شخص نے کہا کہ والد کی ڈائری میں میرا وقت پیدائش صبح دس بجے لکھا ہے۔ تو یہاں نجومی کو چوکنا ہوجانا چاہیے۔ کیونکہ یہاں منٹ کا ہندسہ غائب ہے۔ آخر 10 بجے ہی کیوں؟ 9:59 یا 10:05 پر کیوں نہیں؟ اس لیے یہاں وقتِ پیدائش کی پڑتال ضروری ہے۔ ایسی صورت میں پہلے کلائنٹ کا زائچہ کشید کیجیے۔ اور لگن (طالع برج) کی ڈگری دیکھیے۔ کیا بتائے گئے وقت پیدائش صبح 10 بجے کے مطابق راشی لگن کے درجات بالکل ابتدائی، یا بالکل اختتامی تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو اگلا یا پچھلا برج طلوع ہونے کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے بعد دیکھیے کہ نوانش لگن (d9_navamsa_ascendant) دو چار منٹ پہلے یا بعد میں بدل تو نہیں رہا۔ نجومی کو انفرادی نوانش لگن کی حدود زبانی یاد ہونی چاہیئں۔ نوانش لگن کا برج، راشی کنڈلی کے مندرجہ ذیل درجات پر بدل جاتا ہے۔

00:00، 3:20، 6:40، 10:00، 13:20، 16:40، 20:00، 23:20، 26:40، 30:00۔ اگر کلائنٹ کا طالع پیدائش (d1 جنم لگن) ان درجات کے بالکل قریب ہو تو تصحیح وقتِ ولادت ناگزیر ہے۔ مثلاً اگر کسی کے لگن کی ڈگری 3:19 ہو یا 3:21 ہو تو نوانش کنڈلی کا لگن بدلنے کا امکان خارج از امکان نہیں۔ اس لیے خصوصی احتیاط برتنی چاہیے۔ ایسی صورت میں اگر مولود پہلی مرتبہ زائچہ بنوارہا ہے تو ہر صورت تصحیح پر توجہ دینی چاہیے۔

تیسری صورت: اگر بیان کیا گیا وقتِ پیدائش دو عمومی اقات کار کا درمیانی وقت ہوتو یہ مبہم معاملہ ہے ۔ مثلاً رات آٹھ بجے سے دس بجے کے درمیان۔ صبح چھ بجے سے ساڑھے بجے کے درمیان۔ ایسی صورت میں کبھی دو وقتوں کے درمیانی اوسط (average) پر آنکھ بند کر کے اعتبار نہ کریں۔ مثلاً ایک کلائنٹ نے کہ کہا کہ والدہ کی یادداشت کے مطابق اس کی پیدائش رات 12 اور 1 بجے کے درمیان ہوئی تھی۔ایسی صورت میں وقتِ پیدائش رات ساڑھے بارہ بجے 12:30 تصور کرلینا، گمراہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ایک گھنٹے کے دورانیے میں لگن (طالع) بدلنے کے امکانات کم و بیش 50 فیصد ہوتے ہیں۔ یہاں ہر صورت تصحیح وقتِ ضروری ہے۔ ایسی صورت میں کلائنٹ کی زندگی کے اہم واقعات کی تاریخیں یا شخصیت کے نمایاں پہلو کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جنم لگن اور نوانش لگن کو متعین کرنا ضروری ہے۔

چوتھی صورت: اگر بیان کیے گئے وقتِ پیدائش میں گھنٹے اور منٹ کا ہندسہ نہیں بلکہ کسی دوسرے اعلان یا واقعہ کا حوالہ ہے تو تصحیح  کے ساتھ حوالے (یعنی اس اعلان یا واقعے)کے وقت کا تعین ضروری ہے۔ مثلاً اذان کی آواز، جمعہ کا وعظ، کسی جلوس کا گزر، ٹرین کی سیٹی، گرجا کا گھنٹہ، اسکول کی چھٹی کا وقت، ریڈیو خبر نامے کے بعد وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب حوالے وقت کا تعین چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ ایک ہی شہر میں مختلف مساجد میں اذان کے اوقات ایک جیسے نہیں ہوتے (ماسوائے فجر اور مغرب)۔ اسی طرح پاکستانی ٹرینیں ہر روز متعین وقت پر ہر جگہ سے نہیں گزرتی۔ پھر یہ کہ مولود کی والدہ نے مذکورہ آواز وضع حمل سے پہلے سنی تھی یا بعد میں۔ لہٰذا اس معاملے میں سوال و جواب اور عرق ریزی ناگزیر ہے۔
اگر کلائنٹ اپنا برتھ ٹائم، فجر کا وقت بتائے تو آسٹرولوجر کے کان کھڑے ہوجانے چاہیئں۔ کیوں کہ یہ بے شمار پاکستانیوں کا عام دعویٰ ہے۔ اور اس کی تحریری شہادت خال ہی دستیاب ہوتی ہے۔ فجر سے مراد صبح 6 بجے کا وقت نہیں ہوتا۔ زرا ایک لمحے کو رمضان کی سحری کا وقت ذہن میں لائیں۔ آپ کے دماغ سے صبح چھ بجے فجر کا تصور غائب ہوجائے گا۔ یاد رہے کہ فجر کا وقت ہر روز لمحہ بہ لمحہ بدلتا رہتا ہے (اور یہ تبدیلی سارا سال جاری رہتی ہے)۔ سردیوں کی اذانِ فجر اور گرمیوں کی اذانِ فجر کے وقت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ نیز ہر شہر میں فجر کا وقت دوسرے شہر سے مختلف ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ کلائنٹ کراچی میں پیدا ہوا ہو، اور لاہور میں بیٹھے آسٹرولوجر نے اپنے شہر لاہور کے فجر کا وقت، کلائنٹ کے برتھ ٹائم کے لیے قیاس کرلیا۔ اس لیے فجر کے وقت پیدائش کا دعویٰ سامنے آنے کی صورت میں احتیاط اور چھان پھٹک کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

پانچویں صورت: اگر بیان کیے گئے وقتِ پیدائش میں گھنٹے اور منٹ غائب ہوں۔ اس کے بجائے صبح، دوپہر، شام، رات کا حوالہ بیان کیا گیا ہو تو یہ صریحاً ناقابلِ اعتبار وقتِ پیدائش ہے۔ بغیر تصحیح (without_rectification) ، ایسے بیان کیے گئے وقت پر اندھا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ ایسی صورت میں مولود کو چاہیے کہ وہ درست وقتِ پیدائش کی کھوج بین کرے۔ وہ جہاں پیدا ہوا تھا اس اسپتال جا کر پرانے ریکارڈ کی تلاش کرے۔ والدین سے اپنے وقتِ پیدائش سے متعلقہ سوال جواب کرے۔

چھٹی صورت: جب مولود (کلائنٹ) کو نہ تو اپنی درست تاریخ پیدائش معلوم اور نہ ہی درست وقت پیدائش معلوم ہو۔ تو ایسی صورتحال میں آسٹرولوجر کو زائچہ پیدائش (birth_chart) بنانے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔ یہ اپنے پیر پر خودکلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ قطعی نامعلوم تاریخ اور نامعلوم وقت پیدائش کی تصحیح (rectification) بہت مشکل امر ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ وقتی زائچہ بنا کر یا ساعت دیکھ کر موجودہ مسئلے یا سوال کا جواب دیا جائے۔

وقتِ پیدائش کی درستگی کے معروف طریقے

تصحیح وقتِ ولادت یعنی برتھ ٹائم ریکٹی فیکیشن سے مراد سائل کی جانب سے فراہم کیے گئے مبہم یا نامعلوم وقت پیدائش کو ممکنہ حد تک حقیقی وقت پیدائش میں بدلنا ہے۔ یہ کام جیوتشی، چند تنجیمی تکنیک کی مدد سے کرتا ہے۔ تاہم تصحیحِ وقت کے تیکنیکی طریقے دو جمع دو کی طرح آسان نہیں۔ مطالعے، مشاہدے اور مشق کے بغیر اس عنوان پر مہارت حاصل نہیں کی جاسکتی۔

زائچہ رجوع سے تصحیح وقتِ پیدائش

یہاں زائچہ رجوع سے مراد پرشن (prasna) کنڈلی یا وقتی زائچہ ہے۔ یعنی وہ وقت جب سائل خود نیک نیتی سے نجومی سے رجوع کرتا ہے۔ عموماً (ہمیشہ نہیں بلکہ عموماً) جب کلائنٹ پہلی مرتبہ اپنا زائچہ بنوانے کے لیے آسٹرولوجر سے رجوع کرتا ہے (یا کافی عرصے بعد اپنے ذاتی مسئلے کے سلسلے میں آسٹرولوجر سے رابطہ کرتا ہے) تو اُس وقتِ رجوع کا لگن، مولود کے جنم لگن یا چندر لگن سے ترکون (1st-5th-9th) میں ہوتا ہے۔ یا پھر وقتی زائچہِ رُجوع کے نوانش میں جو برج طلوع ہورہا ہوتا ہے وہی برج مولود کا جنم لگن ہوتا ہے۔ اس سے ملتا جلتا ایک اور قاعدہ یہ ہے کہ جب سائل اپنے زائچہ کے لیے آسٹرولوجر سے رجوع کرتا ہے، اُس وقت وہی ساعت  جاری ہوتی ہے، جو مولود کے پیدائش کے وقت موجود تھی۔ بسا اوقات وقتی زائچہِ رُجوع کے کیندر میں بیٹھا کوئی مضبوط (بلوان) سیارہ مولود کی عمومی زندگی، سب سے نمایاں خصوصیت یا پیشے کی خبر دے رہا ہوتا ہے۔ یہ قواعد اگرچہ عمومی ہیں لیکن کافی مددگار ہیں۔میں نے بارہا اپنے مشاہدے میں ان سادہ اصولوں کو درست پایا ہے۔

ہست سامدرک سے تصحیح وقتِ پیدائش

قدیم ہندوستانی دست شناسی کی ایک شاخ کا دعویٰ ہے کہ ہر انسان کے ہاتھ میں اس کی جنم کنڈلی لکھی ہوتی ہے۔ مرد کے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا، اور عورت کے بائیں ہاتھ کا انگوٹھا اس کے جنم لگن (طالع برج )کا پتہ بتاتا ہے۔ انگوٹھے کی پور پر موجود مہین لکیروں کے تانے بانے (ridges) مختلف اشکال بناتے ہیں۔ جو طالع برج سے منسوب شبیہہ سے میل کھاتے ہیں۔ عام آدمی کے لیے شفاف ہینڈ پرنٹ اور عدسے کی مدد کے بغیر انھیں پہچاننا بہت مشکل ہے۔ اس کے لیے طویل مشق اور تجربہ درکار ہے۔
اسی طرح سات اہم لکیریں، سات سیاروں کی نشاندہی کرتی ہیں (ان لکیروں سے سب واقف ہیں)۔ ہتھیلی کو بارہ گھروں میں تقسیم کیا جاتا ہے (اس بابت بہت کم لوگ علم رکھتے ہیں)۔ باقی چار انگلیوں کی بارہ پوریں، بارہ بروج کی علامت ہیں۔ ہتھیلی پرمخصوص علامات، دھن یوگ، راج یوگ کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اس علم کو روایتی انداز سے سیکھنے کے لیے برسوں کی ریاضت اور استاد کی رہنمائی درکار ہے۔ صرف کتابی مطالعہ سے اس علم میں مہارت نہیں حاصل کی جاسکتی۔

اعضائے جسمانی اور سائے کی طوالت

بعض ماہرین، مولود کی جسمانی ساخت، جلد کی رنگت، چہرے کی بناوٹ، پیشانی کی لکیروں، آنکھوں، قد کی اُٹھان، سائے کی طوالت، پاؤں کے پنجے کی نشان، اور چلنے پھرنے کے انداز سے اس کی کنڈلی کا اندازہ لگانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس علم کے ہزاروں جلی خفی اصول ہیں، جس میں سے صرف چند ہی کتابوں میں ملتے ہیں۔ وگرنہ یہ مخصوص علم صرف استاد اور شاگرد کے مابین سینہ بہ سینہ قائم ہے۔
تاہم جسمانی قد کاٹھ یا رنگت کی بنیاد پر حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ ضروری نہیں کہ زحل (Saturn) لگن میں بیٹھا ہو تو مولود دبلا پتلا کالا ہو۔ لازمی نہیں کہ عطارد (Mercury) جنم لگن میں ہو تو مولود پست قامت علامہ ہو۔ اور ضروری نہیں کہ منگل (Mars) لگن میں ہو تو جسم زخم خوردہ یا جلا ہوا ہو۔ یہ سب عموی ممکنات ہیں۔ لیکن حتمی علامات نہیں۔ کیونکہ زائچہ میں ہر سیارہ کسی نہ کسی انداز میں دیگر سیاروں، گھروں اور حظوظ (ورگ) سے متاثر ہورہا ہوتا ہے۔ نیز یہ ضروری نہیں کہ لگن میں بیٹھا سیارہ بھاؤ مدھیا (cusp) سے یُکت (مقرن) ہو۔ اگر لگن میں قابض سیارہ کے درجات، بھاؤ مدھیا کے درجات سے کافی دور ہوں تو سیارے کے اچھے یا برے اثرات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔ پھر یہ کہ جسمانی ساخت کا انحصار بہت حد تک نوانش لگن پر ہوتا ہے۔ اور رنگت کا انحصار (مولود کی نسل، ڈی این اے کے علاوہ) چندر نوانش پر بھی مبنی ہے۔

لگن شُدھی (Lagna Shuddhi)

شُدھی سے مراد پاکیزہ بنانا اور درست کرنا ہے۔ لگن شدھی کا مقصد پرانے طریقے کے مطابق ہاتھ سے بنائی کنڈلی میں حسابی بھول چوک کی پڑتال ہے۔ لگن شدھی کے لیے گولیک (gulika)، ماندی (mandi) اور پران پد (pranapada) کو دیکھا جاتا ہے۔ چونکہ آج کل کمپیوٹر سوفٹ ویئر کی مدد سے زائچے تخمین کیے جاتے ہیں۔ اس لیے لگن شدھی پر مبنی ریاضیاتی چانچ پڑتال کی ضرورت نہیں رہتی۔

پنچ تتوا (Panch Tatva)

اہل ہند کے ہاں پانچ عناصر کا نظریہ پایا جاتا ہے، جو یونانی اور عربی نجوم کے چہار عناصر سے تھوڑا جداگانہ ہے۔ ہندی نجوم میں ہر دو گھڑی (ایک مہورت یعنی اوسطاً 48 منٹ) کو پانچ غیر مساوی حصوں میں بانٹا جاتا ہے۔ انھیں پانچ ہندی عناصر (پنچ مہا بُھوت) سے منسوب کیا جاتا ہے۔ پرتھوی تتوا (عنصرخاک)۔ جل تتوا (عنصرآب)۔ اگنی تتوا (عنصرآتش)۔ وایو تتوا (عنصر باد)۔ آکاش تتوا (عنصر خلائے آسمانی)۔ اس کے بعد ہر تتوا کو مزید چھوٹے وقفوں یعنی انتر تتوا میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اصول یہ کہ پیدائش کا وقت وہ ہے جب انسان پیدا ہونے کے فوری بعد پہلی بار سانس لیتا ہے۔اور یہ صرف وایو انتر تتوا کےدوران ہی ممکن ہے۔

کنڈا (Kunda) سے تصحیح وقتِ پیدائش

یہاں کنڈا سے مراد 81 ہے۔ یعنی نوانش کا نوانش (9×9=81) ہے۔ اسے d81 بھی کہتے ہیں۔ آپ JHora سوفٹ ویئر یا Parashara’s_Light کی مدد سے لگن کے d81 کا برج اور ذیلی طول (divisional_longitude) معلوم کرسکتے ہیں۔ اصول یہ کہ جنم لگن کا کنڈا (یعنی نوانش کا نوانش) اگر پیدائشی قمر کے نچھتر یا اس کے ترکون میں ہو تو لگن درست ہے، ورنہ نہیں۔ تاہم یہ طریقہ صرف چند منٹ کی خفیف تصحیح کے کام آتا ہے۔

نوانش-دوادشانس سے تصحیح وقتِ پیدائش

یہاں نوانش دوادشانس سے مراد 108 ہے۔ یعنی نوانش کا دوادشانس (9×12=108)۔ آپ JHora سوفٹ ویئر یا Parashara’s_Light کی مدد سے لگن کے d108 کا برج اور ذیلی طول معلوم کرسکتے ہیں۔ اصول یہ کہ جنم لگن کا نوانش دوادشانش، اگر پیدائشی قمر کے نچھتر یا اس کے ترکون میں ہو تو لگن درست ہے، ورنہ نہیں۔ تاہم یہ طریقہ بھی صرف چند منٹ بلکہ سیکنڈ کی خفیف تصحیح کے کام آتا ہے۔

کے پی (KP) ریکٹی فیکیشن کا طریقہ کار

جدید جیوتش کی شاخ “کرشنا مورتی پددھتی” یعنی کے پی آسٹرولوجی، تصحیح وقتِ ولادت کا تحقیقی طریقہ پیش کرتی ہے۔ تاہم یہ بھی کوئی foolproof یا حتمی طریقہ نہیں۔ اس کا خلاصہ یہ ہے۔ کے پی ریکٹی فیکیشن میں مخصوص حاکم سیارگان (ruling_planets) کو بوقتِ رجوع (پرشن) دیکھا جاتا ہے۔ وہ پانچ حاکم سیارے یہ ہیں۔
حاکم یوم (day_lord)۔
حاکم برج قمر (moon’s_sign_lord)۔
حاکم منزلِ قمر (moon’s_nakshatra_lord)۔
حاکم برج طالع (ascendant_sign_lord)۔
حاکم منزلِ طالع (ascendant’s_nakshatra_lord)۔
جس وقت سائل، نجومی کے پاس اپنے زائچہ کی تصحیح کے لیے جاتا ہے۔ نجومی اس وقت کے پرشن سے یہ پانچ سیارگان اخذ کرتا ہے۔ اس تحقیقی طریقے کے مطابق مولود کے زائچہ پیدائش کا لگن لارڈ اور لگن نچھتر لارڈ، پرشن چارٹ کے مذکورہ پانچ حاکم سیاروں میں سے کوئی نہ کوئی سیارہ ہونا چاہیے۔ اگر مولود کے بیان کیے گئے وقتِ پیدائش پر مبنی زائچہ میں ایسا نہیں تو وقت کو آگے پیچھے کر کے تصحیح (rectification) کی جائے۔ تاآنکہ تصحیح شدہ زائچہ پیدائش (rectified_chart) کے لگن لارڈ یا لگن نچھتر لارڈ کا تعلق مذکورہ پانچ حاکم سیاروں سے قائم ہوجائے۔
کے پی آسٹرولوجی میں تصحیح وقت کا ایک اور طریقہ بھی ہے جو فال کی طرح ہے۔ جس میں سائل سے 1 سے 249 کے مابین ایک ہندسہ پوچھا جاتا ہے۔ سائل کے بتائے گئے ہندسے کی مدد سے عارضی ذیلی حاکم منزل یعنی “سب لارڈ”  کی بنیاد پر تصحیح شدہ طالع پیدائش تخمین کیا جاتا ہے۔

نشٹ جاتکم (Nasta Jatakam)

جیوتش کی ایک ذیلی شاخ ہے ۔ نشٹ کا لفظی مطلب ہے گمشدہ۔ اور جاتک یا جاتکم کا معنی ہے زائچہ پیدائش۔ یعنی نشٹ جاتکم، نامعلوم وقتِ پیدائش یا گمشدہ زائچہ کی تلاش کا نام ہے۔ اس طریقے کا انحصار زائچہ رجوع یعنی وقتی زائچہ (prasna) پر ہے ۔ جبکہ کچھ امور “انک شاستر” کی مخصوص ضرب تقسیم ؛ اور کچھ “انگ شگن” یعنی جسمانی فال سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ یہاں میں وقتی زائچہ رجوع پر مبنی چند اہم اصول تحریر کرتا ہوں۔

گمشدہ زائچہ یا تصحیح وقتِ ولات کے لیے اگر سائل رات کے وقت نجومی سے رجوع (پرشن) کرے تو اس سائل یعنی مولود کا وقتِ پیدائش دن کا ہوگا۔ اگر دن میں رجوع (پرشن) کرے تو اس سائل یعنی مولود کا وقتِ پیدائش رات کا ہوگا۔

اگر زائچہ رجوع میں لیلی ہندی برج طلوع ہو تو پیدائشی طالع نہاری ہندی بروج میں سے کوئی ایک ہوگا۔ اگر زائچہ رجوع میں نہاری ہندی برج طلوع ہو تو پیدائشی طالع لیلی ہندی بروج میں سے کوئی ایک ہوگا۔ انڈین آسٹرولوجی میں اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، دلو اور حوت کو دِیوا راشی (نہاری یعنی دن کے بروج) کہا جاتا ہے۔ جبکہ حمل، ثور، جوزا، سرطان، قوس، جدی کو راتری راشی (لیلی یعنی رات کے بروج) کہا جاتا ہے۔ ہندی نجوم کی یہ تقسیم یونانی نجوم میں موجود لیلی اور نہاری بروج سے قدرے مختلف ہے۔

زائچہ رجوع کے تینوں ترکون بھاؤ کی باہمی قوت پر غور کیجیے۔ اِن تینوں میں سے جس ترکون بھاؤ میں سب سے زیادہ قابض سیارے ہوں یا جو ترکون بھاؤ سب سے قوی ہو، وہی مولود کا جنم لگن ہوگا۔ یا پھر زائچہ رجوع کے نوانش میں جو برج طلوع ہو وہی برج مولود کا جنم لگن ہوگا۔

زائچہ رجوع کے جس برج میں قمر ہو، مولود کا جنم لگن اس قمری برج سے کیندر میں ہوگا۔

زائچہ رجوع میں شمس جس درجہ پر ہو، وہی مولود کی جنم تتھی (tithi) یعنی قمری یوم ہوگا۔

اگر زائچہ رجوع کے طالع سے متصل کوئی سیارہ بیٹھا ہو تو مولود اس سیارے سے منسوب موسم (رِتو) میں پیدا ہوا ہوگا۔

اگر زائچہ رجوع کے طالع کے درجات 15 سے کم ہوں تو مولود کی پیدائش، اُترائن شش ماہی (شمسی برج جدی تا جوزا) میں ہوئی ہوگی۔

اگر زائچہ رجوع کے طالع کے درجات 15سے زیادہ ہوں تو مولود کی پیدائش، دکشائن شش ماہی (شمسی برج سرطان تا قوس) میں ہوئی ہوگی۔

زائچہ رجوع کے ترکون بھاؤ پتی میں سے جو سب سے قوی سیارہ ہو، مولود کا پیدائشی قمر، اسی سیارہ کے برج میں بیٹھا ہوگا۔یا وقتِ رجوع سائل اپنے بدن کے جس عضو کو لاشعوری طور پر ہاتھ لگائے، مولود کا پیدائشی قمر، اسی عضو سے منسوب برج میں ہوگا۔

نوانش سے تصحیح وقتِ پیدائش

نوانش (navamsa) سب سے اہم ذیلی زائچہ ہے۔ یہ تصحیح وقتِ پیدائش کا بھی ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ بالخصوص جب پیدائشی طالع برج، یقینی ہو اور پندرہ بیس منٹ کی درستگی درکار ہو۔ نوانش کو صرف بیوی/شریکِ حیات کے لیے نہیں دیکھتے۔ یہ عام غلط فہمی ہے۔ نوانش چارٹ کو زندگی کے ہر معاملہ کے لیے “بطور ثانوی دلیل” دیکھا جاتا ہے۔ میرے مشاہدے میں نوانش کنڈلی کو تصحیح وقتِ پیدائش کے لیے استعمال کرنا ایک مؤثر طریقہ ہے۔ اس کا اصول یہ کہ نوانش کنڈلی کو انفرادی طور پر (نوانش طالع کی نسبت) آزادانہ پڑھا جائے۔ نوانش کنڈلی میں سیاروں کی گھروں میں موجودگی کو بالکل عام زائچے کی طرح دیکھا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ راشی کنڈلی میں اس امر کے مخالف دلائل موجود نہ ہوں۔
تصحیح کے لیے سب سے پہلے راشی کنڈلی کے اُن گھروں کو دیکھیں، جو خالی ہیں، یا جن گھروں پر کوئی نظر نہیں۔ ان گھروں کو نوٹ کرلیں۔ اب وہی گھر نوانش کنڈلی میں دیکھیں۔ آیا وہاں کوئی سیارہ قابض ہے۔ اگر ایسا ہے تو (قابض سیارے اور نوانش برج کے ممکنہ نتائج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے) اس گھر سے متعلق حکم لگایئے اور مولود سے تصدیق طلب کریں۔ اگر ایسا نہیں تو بتائے گئے وقت پیدائش کو چند منٹ آگے پیچھے کر کے نوانش لگن بدلیے۔ پھر ان گھروں سے متعلق حکم لگایئے اور مولود سے تصدیق چاہیں۔ نوانش کنڈلی میں کیندر استھان  (1st/4th/7th/10th) بہت اہم ہوتا ہے۔ کیندر میں قابض سیارہ نہ صرف اس متعلقہ گھر بلکہ اس گھر سے تثلیث (ترکون) میں موجود دیگر دو گھروں کی خبر دیتا ہے۔ مثلاً نوانش کا پہلا کیندر، نہ صرف پہلے گھر، بلکہ پانچویں اور نویں گھر کے حوالے سے کارآمد معلومات دے سکتا ہے۔ نوانش کنڈلی کا دسواں کیندر، نہ صرف دسویں گھر، بلکہ دوسرے اور چھٹے گھر کے لیے اہم اشارہ ہے۔ دوسرا طریقہ یہ کہ آپ کو جو یوگ راشی کنڈلی میں نظر آئے، اس سے منسلک یا ملتا جلتا کوئی یوگ نوانش کنڈلی میں ڈھونڈیے۔ اگر نوانش میں وہی یوگ موجود ہو تو مولود کو اس یوگ کا پورن پھل (کلی ثمر) ملتا ہے۔ مثلاً اگر راشی کنڈلی میں دھن یوگ ہے، اور نوانش میں بھی دھن یوگ ہے۔ تو مولود یقیناً دولت مند اور صاحبِ ثروت ہوگا۔

لگن ونشوتری سے تصحیح وقتِ پیدائش

ونشوتری دَشا (vimshottari_dasa) سے ہر آسٹرولوجر بخوبی آگاہ ہے۔ عام طور پر ونشوتری دَشا کو پیدائشی قمر کے نچھتر کی بنیاد پر تخمین کیا جاتا ہے۔ یہ سب سے معروف اور مستند قاعدہ ہے۔ تاہم مخصوص صورتحال میں ونشوتری کو دیگر مقامات سے اخذ کیے گئے نچھتر سے بھی دیکھا جاتا ہے۔ اس کا حوالہ جاتک پریجات میں موجود ہے۔
لگن ونشوتری سے مراد ونشوتری دَشا ہے۔ تاہم لگن ونشوتری کا نقطہِ آغاز پیدائشی قمر کے نچھتر کے بجائے پیدائشی طالع کے نچھتر سے کیا جاتا ہے۔ ہر جیوتش سوفٹ ویئر میں اب یہ آپشن دیا ہوتا ہے کہ دَشا کے لیے نقطہ آغاز قمر (natal_moon) کو بنایا جائے یا طالع (natal_ascendant) کو لیا جائے۔ لگن ونشوتری دشا بہت حساس (sensitive) ہے، یعنی وقتِ پیدائش میں ایک آدھ گھنٹے کی تبدیلی سے پوری دشا کا ٹیبل کئی برس آگے یا پیچھے ہوجاتا ہے۔

لگن ونشوتری سے تصحیح پیدائش کے لیے سب سے پہلے مولود کی زندگی کے پانچ دس اہم ترین واقعات مع تاریخ نوٹ کرلیں۔ جیسے پچپن کی کوئی خطرناک بیماری، کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ، پہلی ملازمت، منگنی، شادی، پہلے بچے کی پیدائش، مالی فائدہ یا نقصان، اہم سفر، پیشہ ورانہ تبادلہ یا ترقی، والد یا والدہ کی وفات وغیرہ۔
زندگی کے اہم واقعات (events) کی تاریخوں کا لگن ونشوتری سے اخذ کردہ مہا-انتردشا سے موازنہ کریں۔ آیا وہ کس حد تک درست ہیں۔ اگر بیشتر واقعات کی تاریخیں لگن ونشوتری کی مہا-انتردشا سے مطابقت نہیں کرتیں تو وقت پیدائش میں چند منٹوں کی تبدیلی کر کے پھر موازنہ کریں۔ یہ عمل بار بار دہرائیں تآنکہ تصیح شدہ وقتِ پیدائش  سے آپ مطمین نہ ہوجائیں۔
یاد رہے کہ اگر آپ وقتِ پیدائش کو چند منٹ آگے کریں گے تو لگن ونشوتری کی مہا-انتر دشاوں کی تاریخیں پیچھے ہوجائیں گی۔ اگر آپ وقتِ پیدائش کو چند منٹ پیچھے کریں گے تو لگن ونشوتری کی مہا-انتر دشاوں کی تاریخیں آگے ہوجائیں گی۔ لگن ونشوتری کو اس وقت استعمال میں لانا موزوں ہے، جب طالع پیدائش (جنم لگن) کے برج کی تصحیح کی جاچکی ہو اور صرف درجات کی تصحیح (rectification) درکار ہو۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں