جدید منڈین اسٹرالاجی اور دنیا کے بدلتے حالات

0
404
modern-mundane-astrology

منڈین اسٹرلاجی اور جدید نجومی سسٹم 

علم نجوم ایک وسیع شعبہ ہے۔ شاید ہم میں سے کوئی ہوگا جو 100% اس کو سمجھ سکا ہو۔ ہر کوئی اپنی محنت کی بنیاد پر اس علم میں کچھ نہ کچھ حصہ شیئر کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح میں کافی وقت سے سوچ رہا تھا کے جب ستاروں کی ٹرانزٹ پوری دنیا کے لیئے ایک ہے تو پھر انکے اچھے بری پھل پوری دنیا پر کیون نہین آتے۔ اسی سوچ کو لیکر ایک دوست محترم رضا عسکری صاحب جو میرے شہر کے ایک سینئر اسٹرالاجر ہیں ان سے مشورہ لیا جس پر انہونے میری ذہن میں ایک سوچ ڈالی کے کیوں نہ ہم ایک دنیا کا نقشہ اٹھا کر اس پر کام کریں اور انکی مدد سے میں اس کام پر لگ گیا۔

سیدھا ٹاپک کی طرف آتے ہوئی ہم آجکل چلنے والی وائرس اور دیگر قدرتی آفات اور اسٹرالاجی پر کام کرنے لگے تو ہمیں اپنے اس نئیں ایجاد اور طریقہ کے بہت ہی زیادہ نتائج ملنے لگے۔ اور کافی وقت کی محنت کے بعد آج میں اس فورم کی مدد سے اپنا نیاں منڈین سسٹم متعارف کرنے جا رہا ہوں امید ہے میرے دوست اس کو پڑہ کر، اور اس پر کام کرنے کے بعد اپنے رائے سے آگاہ کریں۔

سب سے پہلے ہم نے نیچے دیئے گئے دنیا کے نقشے کو اٹھایا اور اس کے 360 ڈگریوں کو تیس ڈگری کے حساب سے بارہ بروج پر تقسیم کیا، جیسے کے دنیا کا مرکز برطانیہ کو لیا جاتا ہے جسے گرین وچ کہتے ہیں، اس کو مدنظر رکھ کر ہم نے گرین وچ کو حمل برج لیا اور تقسیم کا بنیاد گرین وچ سے مشرق تا مغرب لیا۔ گرین وچ سے مشرق کی طرف تیس ڈگری تک ہم نے برج حمل کو لیتے ہوئے آگے تیس تا ساٹھ ڈگری کو ہم نے برج ثور لیا اسی طرح 180 ڈیگری تک ہمنے برج حمل سے لیکر برج سنبلہ کو دیئے۔

جیسے کے آپ سب جانتے ہیں، انڈین نجوم کا سسٹم anti-clockwise ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا کے نقشے پر 180 ڈگری مغرب سے لیکر زیرو ڈگری مغرب تک برج میزان تا حوت تک تقسیم کیا۔ اور 180 ڈگری مغرب سے ہمنے میزان کو شروع کیا اور 30 ڈگری مغرب تا 00 ڈگری مغرب کو حوت برج دیا جس کے تفصیلات میں نیچے دیئے گئے دنیا کے نقشے پر دے چکا ہوں۔ اسی دنیا کے نقشے کے اندر آنے والے ہر بروج کو مختلف ممالک میں تقسیم کیا۔

اب ہم اس طریقہ کار کو اپناتے ہوئی آجکل کے حالات خاص کر وائرس اور دیگر کچھ معاملات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں تا کے ہم آسانی سے سمجھ سکیں ہمارا یے نیا طریقہ کیسے کام کرتا ہے۔ 

جیسے کے ہندی نجوم کو ماننے والے جانتے ہیں کے آج کل چلنے والے وائرس کا جنم کیتو ستارہ کی وجہ سے ہوئا ہے، اسکا پھیلاؤ راہو اور اموات کی وجہ ستارہ ذحل اور مشتری بھی بنے، لیکن یہان جب منڈین اسٹرالجی کی بات آتی ہے تو میں ستارہ پلوٹو کو بھی برابر کا شریک سمجھتا ہوں کیون کے دنیا کے اندر جب بھی اس طرح کے اجتماعی اموات ہوئے ان میں اکثر کسی نہ کسی انداز میں ذحل اور پلوٹو کا بھی ہاتھ دیکھا گیا ہے۔

اسی طرح یے وائرس چین سے شروع ہوتا ہے جو دنیا کے نقشہ کے اندر 75 تا 120 ڈگری مغرب پر ہے اور اوپر بتائے طریقہ کار کے مطابق 60 تا 90 ڈگری مغرب میں برج جدّی اور 90 تا 120 ڈگری میں برج قوس آتا ہے (باقی کی رہنمائی کے لیئے نیچے دیئے گئے نقشہ کو دیکھا جا سکتا ہے) اسی طرح جیسے برج قوس پر کیتو، ذحل اور مشتری کا قِرآن ہوتا ہے تو چین سے وائرس جنم لینے لگتا ہے، لیکن چین کے اندر اموات کی شرح دوسرے ممالک کے اندر ہونے والی اموات سے بہت کم دیکھی گئی، وجہ یہان پلوٹو کا عمل دخل دیکھنے کو نہیں ملتا جو آگے سمجھ آ جائیگی۔

مشتری کیتو اور ذحل کی اثرات لیکر جب قوس سے اپنی پانچھویں نظر برج حمل پر ڈالتا ہے تو برحمل کے اندر آنے والے ممالک جن میں برطانیہ، اسپین، آئرلینڈ آتے ہیں اور فرانس کا ایک چوتھائی حصہ برج حمل اور باقی کا گرین وچ سے مغرب پر ہے جو برج حوت میں آتا ہے جس وجہ سے ذحل کے برج قوس پر ہونے (جنوری ۲۰۲۰) تک فرانس کچھ حد تک بچہ رہا۔ لیکن اوپر دی گئی ممالک اور چین اس وائرس کی لپیٹ میں آئے، اسکے بعد ذحل کی تیسری نظر برج دلو پر پڑنے کی وجہ سے آپ دیکھ سکتے ہیں گرین وچ سے مغرب کی طرف 120 تا 150 ڈگری کے اندر سعودی ایران اور عراق آتے ہیں جن میں ذحل کا قوس میں ہونے تک (جنوری 2020) ان ممالک میں وائرس نے تباہی مچا دی خاص کر ایران میں، اسکے بعد ذحل کیتو مشتری کی ساتویں نظر برج جوزا پر پڑتی ہے اور  طول البلند (Longitude) پر آفریکی کچھ ممالک تو آتے ہیں لیکن عرض بلند (Latitude) پر کوئی ملک نہیں سوائے آمریکا کے نیویارک، بوسٹن اور کچھ دیگر شہروں کے اس لیئے یہان ہمیں انکی ساتویں نظر کی وجہ سے کچھ خاص نتائج دیکھنے کو نہیں ملتے، اور اس دور میں ذحل کی بھی دسویں نظر سے برج سنبلہ پر پڑتی ہے جو نقشہ میں 150 تا 180 ڈگری مشرق میں ہے اور وہاں پر بھی سوا الاسکا آمریکی ریاست کے کچھ نہیں نظر آتا.

جنوری کے بیچ تک ذحل اور مشتری برج تبدیل کرتے ہیں اور وہ قوس سے جدّی میں جاتے ہیں وہاں انکا قِرآن پلوٹو سے ہوتا ہے اور اسی دور میں اچانک سے وائرس کی وجہ سے دنیا میں تباہ کاریاں شروع ہو جاتی، سب سے پہلے ذحل اور مشتری کی برج تبدیل کرنے کی وجہ سے چین ایران سعودی اور عرب ممالک میں وائرس میں کمی آنے لگتی ہے۔ تو دوسری جانب  ذحل اپنی تیسری نظر برج حوت پر ڈالتا ہے جو دنیا کے نقشہ میں 150 تا 00 ڈگری مغرب پر واقع ہے اور اسکی لپیٹ میں آنے والے ممالک اٹلی، فرانس اور دیگر یورپی ممالک آتے ہیں اور یہاں پر جنوری کے بعد یورپ میں وائرس اور اسکی وجہ سے ہونے والی اموات سب کے سامنے ہیں، پھر برج دلو سے انکی ساتویں نظر برج سرطان پر پڑتی ہے اور آمریکا بری طرح وائرس کے لپیٹ میں آجاتا ہے، اور ہزاروں لوگوں کی اموات واقع ہوتی ہیں. 

پاکستان اور انڈیا دنیا کے نقشہ میں برج جدّی کے اندر آتے ہیں، یہان بھی اچانک سے وائرس کا پھیلاؤ ہونے لگتا ہے، اور جوں جوں ذحل پلوٹو سے دور ہوتا جا رہا ہے ویسے ہے ان ممالک میں اموات کی شرح کم ہونے لگتی ہے اور پاکستان اور بھارت میں لاک ڈائون میں بھی کمی آنے لگتی ہے۔ وہیں مشتری کی پانچھویں اور ساتویں نظر برج ثور اور سنبلہ پر پڑتی ہے جہان دنیا کے نقشہ میں ممالک نہیں آتے۔ 

ہم سب جانتے ہیں کے برج جدّی معدنی وسائل اور عملُ اور مقافات عمل کا گھر ہے اور یہان سے بیٹھ کر ذحل کی ساتویں نظر کی وجہ سے آمریکا کے اندر تیل (معدنی وسائل) کا شدید بحران ہونے لگ جاتا اور تیل کی قیمتیں بلکل گر جاتی ہیں۔ جیسے جیسے ذحل آگے جا رہا ہوتا ہے اور وہ پلوٹو سے دور ہوتا جا رہا تو وائرس کا اثر دنیا سے کم ہونے لگتا ہے اور دنیا لاکڈائون ختم کرنے کی طرف جا رہی ہوتی، لیکن ایک بار پھر ذحل اور مشتری رجعت میں چلے جاتے ہیں، انکا رجعت میں ہوتے ہی ایک بار پھر پاکستان اور بھارت میں کورونا کا پھیلاؤ بڑھ جاتا ہے تو دوسری جانب آمریکا میں ریڈ انڈین کا مسئلا ابھر آتا ہے، اور چین ایک بار پھر نئیں وائرسز اور سیلاب کی زد میں آجاتا، یے وہی وقت ہے جب چین اور بھارت آمنے سامنے ہوتے ہیں تو دوسری جانب پاکستان میں جہاز حادثہ پیش آتا جس میں اجتماعی اموات ہوتی ہیں، اور کچھ دہشتگردی کے واقعات کا بھی پاکستان کو سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ 

اسکے علاوہ کافی کچھ پرانے واقعات بھی ہیں جب ذحل برج جدّی میں آتا ہے تو ساتویں نظر سے برج سرطان میں واقع آمریکا کو مسائل کا سامنا ہوتا ہے، خواہ ہو 1902 کیوبا کی آزادی ہو یا 1962 میں کیوبا کے اوپر روسی بمباری سے ہونے والے روس اور آمریکا کا مسئلا ہو یا اسی دور میں یا 1962 میں چین بھارت سینو وار ہو یا 1990-92 کا دور ہو جب آمریکا شگر کی بیماری کے لپیٹ میں آتا ہے اور ذحل کی برج جدّی کے دو سالا دور میں پندرہ لاکھ سے زیادہ لوگ شگر کی لپیٹ میں آجاتے۔ اسی طرح جب بھی ذحل برج جدّی میں آتا ہے بھارت پاکستان چین اور آمریکا کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسکے علاوہ اور بہت سارے تاریخی حادثات، بیماریاں، قدرتی آفات بھی ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کالم زیادہ ہو جانے کی وجہ سے میں یہان بیان نہ کرنے کی وجہ سے آپ سب دوستوں سے معذرت خواہ ہوں۔

میں سب دوستوں سے اپیل کرتا ہوں اس طریقہ منڈین اسٹرالجی پر غور و فکر کریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں۔ اگر آپکو کہیں کچھ غلطی نظر آتی ہے تو ہماری رہنمائی فرما کر اس طریقہ منڈین اسٹرالجی کو بہتر سے بہتر بنانے میں مدد کرنے تا کے وقت کے ساتھ ہونے والی تبدیلی سے ہم اچھے سے فائدہ آٹھا سکیں۔ شکریہ

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں