منڈین آسٹرولوجی اور اس کی مشکلات

3
836
mundane-astrology-in-pakistan

تعارف

نجوم کی وہ شاخ جو اجتماعی دنیاوی اور سیاسی اُمور کا احاطہ کرتی ہے، اسے آج کل منڈین آسٹرولوجی (mundane-astrology) کہا جاتا ہے۔ نجوم کی یہ شاخ بہت سے شعبوں کا مجموعہ ہے۔ مثلاً عالمی معاملات، ملکی صورتحال، سیاسی حالات، دفاع، جنگ و امن، موسمیاتی تغیرات، زلزلے، سیلاب، زراعت، معاشیات، کھیل، فلم، عوامی رجحانات وغیرہ منڈین آسٹرولوجی کے زمرے میں آتے ہیں۔ یعنی انفرادای زندگی کے باہر جو کچھ دنیا میں اجتماعی طور پر ہوتا ہے، وہ سب منڈین آسٹرولوجی سے دیکھا جاتا ہے۔

تاحال منڈین آسٹرولوجی کے لیے اردو میں کوئی متعین ترجمہ یا لگی بندھی ترکیب موجود نہیں۔ اسے نجومِ عالم، سیاسی نجوم، یا ملکی و سیاسی زائچہ شناسی کہہ سکتے ہیں۔ بعض مغربی مصنفین نے پولیٹیکل آسٹرولوجی کے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں۔ چونکہ بیشتر قارئین، انگریزی اصطلاح منڈین آسٹرولوجی سے بخوبی واقف ہیں۔ اس لیے اس مضمون میں یہی ترکیب استعمال کی گئی ہے۔

انگریزی لفظ منڈین (mundane) دراصل لاطینی mundus سے مشتق ہے جو یونانی کوسموس (‘kosmos‘) کا ترجمہ ہے۔ اس کے معنی “دنیاوی”، “ارضی” اور “مادی زندگی” کے ہیں۔ اس عنوان کے لیے عربی کتب میں “عالمَ” کا لفظ جبکہ فارسی میں “جہان” بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً thema-mundi-chart کو اہل فارس “زائچہ جہان” کہتے ہیں۔ ہندوستان میں دنیاوی امور پر مبنی جیوتش اور شگون کی ضغیم کتاب کو سمہیتا (samhita) کہتے ہیں۔ منڈین آسٹرلوجی کا ایک اور نیا ہندوستانی مترادف “میدنی جیوتش” (medini-jyotish) ہے۔ ہندی اور سنسکرت میں میدنی کا مطلب زمینی یا ارضی ہے۔
روایتی طور پر منڈین آسٹرولوجی کو نجوم کی باقی ماندہ شاخوں کے بعد سیکھا اور سکھایا جاتا ہے۔ یعنی ہیئت (گنِت، آسٹرونومی)، نجومِ پیدائش (جاتک)، نجومِ رُجوع (پرشن)، نجومِ اختیاری (مہورت) کے بعد نجومِ عالم (منڈین آسٹرولوجی) کی باری آتی ہے۔
منڈین آسٹرولوجی کے معاملے میں یونانی/مغربی نجوم قدرے زیادہ زرخیز رہا ہے۔ ماضی میں یونانی نجوم کے مسلمان اور یوروپی کے ماہرین نے اس علم پر بڑی تحقیق کی ہے۔ جبکہ جیوتش کی زمین منڈین آسٹرولوجی کے معاملے زرا مشکل ہے۔ سمہیتا (samhita) میں جہاں کہیں علمی حوالے ہیں، تو اس کے ہمراہ شگون کا طومار شامل ہے۔ اس لیے آج کل کے انڈین آسٹرولوجروں نے ویسٹرن آسٹرولوجی کی بہت سی تکنیکوں کو خاموشی سے قبول کرلیا ہے۔
بیسویں صدی بالخصوص جنگ عظیم کے اختتام کے بعد یوروپ اور امریکا میں علم اور سائنس نے نئی کروٹ لی تو وہاں کے ماہرینِ نجوم نے روایتی منڈین آسٹرولوجی کا ازسرنو جائزہ لیا۔ ماضی کے بوسیدہ اور مبہم اصولوں کو خیر باد کہا۔ نئے دریافت شدہ سیارگان (یورنس، نیپچون اور پلوٹو) اور ان کے قِرانات (conjunctions) اور فطری ادوار (cycles) کے اثرات کا بغور مطالعہ کیا۔ تاریخ عالم اور دنیا کے اہم واقعات کا ان سے موازنہ کیا۔ جس کے باعث نئی تحقیقات سامنے آئیں۔ ساتھ ہی آسٹرو لوکیلیٹی پر مبنی شاخ کا احیاء ہوا۔ علاوہ ازیں عالمی واقعات (یعنی ملکوں کے قیام، آزادی، انقلاب، آفات، حملوں، معاہدات وغیرہ) کی درست تاریخیں اور وقت ریکارڈ کرنے پر توجہ دی گئی۔

پاکستان میں منڈین آسٹرلوجی کی صورتحال

زرا اپنے گرد و بیش باالخصوص پاک و ہند کی علمی صورتحال پر نظر دوڑائیے۔ یہاں کی جنتریاں، نوروز کے سالانہ زائچہ سے آگے نہیں بڑھ پاتیں۔ جس میں شرفِ شمس کی لوح بنانے کی خاص ترکیب پہلے لکھی ہوتی ہے۔ زائچہ اور پیش گوئی بعد میں درج ہوتی ہے اور وہ بھی بغیر کسی تنجیمی دلیل کے۔ اردو میں چھپنے والے رسائل میں آسٹرولوجی سیکھنے کا مواد شاید ایک فیصد بھی نہ ہو۔ اردو رسائل میں عملیات کی بھرمار ہوتی ہے، پرائز بونڈ کے لکی نمبر نکالنے کی ترکیب، اور بارہ بروج کے لیے ماہانہ پیش گوئی کے انبار بھی ہوتے ہیں۔ لیکن علمِ نجوم یعنی تنجیمی دلیل، حوالہ اور علمی بات شاید ہی کہیں نظر آئے۔
ایک پڑھا لکھا نوجوان جب پہلی بار اس میدان میں قدم رکھتا ہے تو پریشان ہوجاتا ہے کہ کیا کرے، کیا پڑھے اور کیا سمجھے۔ اس لیے بہت سے قابل نوجوان مایوس ہو کر منڈین آسٹرولوجی کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ یا زندگی کی دیگر مصروفیات ڈھونڈ لیتے ہیں۔
رسائل سے نکل کر اخبارات کا جائزہ لیجیے۔ نئے اخبارات، سن سائن پر مبنی روزانہ یا ہفت روزہ پیش گوئیاں کا روایتی کالم ضرور چھاپتے ہیں۔ کچھ آسٹرولوجر کالا چشمہ پہن کر حالاتِ حاضرہ کے اخباری کالموں میں پیش گوئی بھی کرتے ہیں۔ جہاں آپ کو مبہم اسلوب کے علاوہ شاید کچھ اور نہ ملے۔ یعنی پورے کالم کی آخری سطور میں اگر۔مگر، ہاں۔نہیں کے ساتھ اشارے کناے میں ایک پیش گوئی ہوتی ہے۔ جس کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اگر حکومت نے کچھ نہ کیا، تو آنے والے وقت میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایسے کمالِ فن کی داد دینا چاہیے۔
اب چند اور حقیقی مثالیں پیش کرتا ہوں۔ سوشل میڈیا پر کچھ آسٹرولوجر دوست اختصار کی حدوں کو پار کرجاتے ہیں۔ صرف اتنا بتاتے ہیں کہ یہ ہفتہ پاکستان کے لیے اہم ہے، بلکہ بہت ہی اہم ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ وہ یہ پیش گوئی ہر ہفتے دوہراتے ہیں کہ دیکھنا اس ہفتے کیا ہونے والا ہے۔ میں نے کئی بار عرض کیا جناب یہ تو بتائیں کس میدانِ حکومت یا عوامی شعبے کے ساتھ اچھا برا ہونے والا ہے۔ سیاست، مذہب، معیشت، زراعت، پارلیمنٹ، قرضہ، کرنسی، دفاع، بین الاقوامی تعلقات، نقل و حمل، تعمیراتی منصوبے، اجناس، تعلیم، کھیل، فلم، میڈیا، موسم؟ اور کس صوبے یا شہر میں وقوع پذیر ہونے کا امکان زیادہ ہے؟ کچھ تو کُھل کر بتائیے۔ مگر وہ ہیں کہ صاف چُھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں۔
اب ایسی انمول پیش گوئی کا کوئی کیا کرے؟ بائیس کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں ہر روز کچھ نہ کچھ اہم ضرور ہوتا ہے۔ اگر نہ ہوتا تو اخبار نہ چَھپتے اور نیوز چینلز بند ہوجاتے۔
کچھ آسٹرولوجر اپنے لعابِ ذہن سے تخلیق کردہ جنگ سے متفکر بلکہ اس کے شدید متمنی رہتے ہیں۔ میرے ایک دوست فون پر مجھے ہر مہینے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بہت جلد پاک-بھارت جنگ ہونے والی ہے جو تیسری عالمی جنگ (تھرڈ ورلڈ وار) میں بدل جائے۔ کفر و الحاد کے معرکے کے بعد اِن شاءاللہ ہمارا سنہری دور شروع ہوگا۔ اور ایسا وہ برسوں بلکہ عشروں سے کہہ رہے ہیں۔ ویسے نیک دل انسان ہیں اور ان سے پرانی یاد اللہ ہے۔ اس لیے ان کی معصومانہ خواہش پر حجت نہیں کرتا۔
ایک اور شریف النفس دوست ہیں، جو روحانیت سے دلچپسی رکھتے ہیں۔ جفر اور حکمت بھی کرتے ہیں۔ نجوم کے پیرائے میں موجودہ حالات کو دور الفتن ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ یعنی منڈین آسٹرولوجی سے قربِ قیامت کی نشانیاں ڈھونڈتے ہیں۔ میں تنجیمی دلیل پوچھتا ہوں تو شک سے مجھے دیکھتے ہیں گویا میرا آخرت سے ایمان اُٹھ گیا ہے۔ یا مغربی تعلیم نے میرے نظریات بدل دیے ہیں۔
کچھ پاکستانی آسٹرولوجر منگل سے دنگل کرتے رہتے ہیں۔ یعنی سیاست میں فوج کے نئے کردار پر پیش گوئی دیتے رہتے ہیں۔ بلکہ ایسے کئی نامی گرامی جیوتشی ہیں جو عسکری مہم جوئی کے منتظر رہتے ہیں۔ آپ ایسے پاکستانی آسٹرولوجروں سے پوچھیے کہ ملکی زائچہ میں فوج کا گھر یعنی سینا اِستھان کون سا ہوتا ہے۔ غالب گمان ہے کہ دس میں سے نو آسٹرولوجر آئیں بائیں شائیں کریں گے یا سوال گول کر جائیں گے۔ رہا دسواں آسٹرلوجر تو وہ کہے کہ زائچہ میں گھر کیا ہوتا ہے؟
پاکستان میں کچھ بیوروکریٹ، نیوز اینکرز اور سیاستدان ایسے بھی ہیں، جو منڈین آسٹرولوجی سے بذاتِ خود تو زیادہ آشنا تو نہیں، لیکن مقامی جیوتشیوں کا وسیع حلقہ احباب رکھتے ہیں، اور ان کی آؤ بھگت بھی کرتے ہیں۔ لیکن یہ دوستی بلا غرض و غایت نہیں ہوتی۔ ایسے معاملہ شناس دراصل یہ جاننے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کا دھڑن تختہ کب ہوگا۔ تاکہ اسی حساب سے آگے خبریں دی جاسکیں، اور اپنے تعلقات استوار کیے جاسکیں۔
پاکستان میں منڈین آسٹرولوجی کی ایک اور غیر رسمی شکل بھی پائی جاتی ہے۔ جو درحقیقت سیاسی بیان بازی اور پروپیگنڈا ہے۔ آپ نے ٹی وی پر چند سدا بہار سیاستدان اور اینکرز دیکھے ہوں گے۔ جو نت نئی پُھلجڑی چھوڑنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ ان پیش گوئیوں کا اُسلوب کچھ یوں ہوتا ہے: اس عید کے بعد ایک بڑی قربانی ہونے والی ہے۔ اپوزیشن جوڈو کراٹے کے موڈ میں ہے۔ پارٹی کی وکٹ گرنے کا ٹائم آگیا ہے۔ تھرڈ ایمپائر حکومت کے حق میں ہے۔ دو میں سے ایک کا بلاوا آنے والا ہے۔ اسلام آباد کا موسم ٹھنڈا ہے لیکن پنڈی کا گرم ہے۔ الیکشن سے پہلے دمادم مست قلندر ہوگا۔
اس نوعیت کی مشق کو پاکستان میں منڈین آسٹرولوجی کہتے ہے۔ جہاں علمی معیار اور فکری جہت یہ ہو، وہاں منڈین آسٹرلوجی پر دلیل اور حوالے کی کیا حیثیت۔ رہے نام اللہ کا۔

منڈین آسٹرلوجی مشکل اور مبہم کیوں ہے؟

دنیا بھر میں یہ ایک مشکل میدان ہے۔ لیکن پاکستان میں تو مشکل تر اور مبہم ترین ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ہمارے ملک کافی حد تک تاریخ و تحقیق سے دوری کا مسئلہ ہے۔ کچھ ذاتی پسند ناپسند پر مبنی تعصبات ہیں۔ کچھ فلکیات (آسٹرونومی) سے لاعلمی ہے۔ کچھ معیاری کتابوں اور آسان تراجم کی کمی ہے۔ کچھ زائچہ شناسی کے بنیادی اصولوں سے رو گردانی ہے۔ اور کافی حد تک فرضی زائچوں پر اندھا انحصار ہے۔ اِن وجوہات کو میں عنوان بہ عنوان بیان کرتا ہوں۔

پہلا مسئلہ: تاریخ اور معاشرتی علوم سے لاعلمی

منڈین آسٹرولوجی سیکھنے کی راہ میں اہم دِقت عالمی اُمور اور دنیاوی علوم سے ناشناسائی ہے۔ پاکستان میں بیشتر تعلیم یافتہ عوام، تاریخ، جغرافیہ، سیاسیات، معاشیات اور معاشرتی علوم سے نابلد نظر آتے ہیں۔ یا اِن علوم پر بہت ہی سطحی معلومات رکھتے ہیں۔ جو شاید ٹی وی ٹاک شوز، سیاسی نعرے بازی، یوٹیوب کی سنسی خیز ویڈیوز یا فیس بک کی پوسٹوں سے اخذ کردہ ہوتی ہیں۔ درحقیقت یہ سب خبروں کے گمراہ کن ذرائع ہیں۔
منڈین آسٹرولوجی سیکھنے والے بہت سے سادہ لوح طلبہ، مطالعہ پاکستان کی سرکاری کتاب سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ اور جو اندھے مقلد ہوتے ہوتے ہوں وہ سازشی مفروضات (کانسپریسی تھیوری) اور ہر کہی اَن کہی کو من جانب اللہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ کچھ آسٹرولوجر اپنی سیاسی خواہشات کو پیش گوئی بناکر پیش کرتے رہتے ہیں۔

ہم پاکستانی! سوال کی جرات، یا تحقیق کی جستجو نہیں کرتے۔ کوئی دعویٰ سامنے آئے تو سوال کریں، آیا یہ بات کتنی مصدقہ ہے؟ کتنی قیاس آرائی ہے؟ کیا اس کا کوئی معتبر حوالہ ہے؟ کوئی مستند ثبوت ہے؟

شاید افریقہ اور عرب ریاستوں کے بعد پاکستان اور افغانستان میں مطالعہ کا رجحان سب سے کم ہے۔ ہم پاکستانیوں کو پانچ سو روپے کا زِنگر برگر اور ہزار روپے کی کڑاھی مہنگی نہیں لگتی۔ لیکن دو سو روپے کی کتاب خریدنے سے جان جاتی ہے۔ اب تو انٹرنیٹ نے دنیا کے ہر علم تک رسائی کو نہ صرف سہل بلکہ تقریباً مفت بنادیا ہے۔
میں ہر نوجوان کو ترغیب دیتا ہوں کہ وہ منڈین آسٹرولوجی سیکھنے سے پہلے تاریخ، جغرافیہ، سیاسیات اور معاشرتی علوم پڑھے اور سمجھے۔ تھوڑا بہت ہی سہی۔ لیکن ان کا بغور مطالعہ ضرور کرے۔ اب تو بے شمار آن لائن انسائیکلوپیڈیا، آپ کے لیپ ٹاپ اور موبائل کی دسترس میں ہیں۔ ایک سے ایک معیاری کتاب eBook کی شکل میں میسر ہے۔ کہی سنی بات، توہمات اور قیاس آرائی کے بجائے اچھی تاریخی کتب کا مطالعہ کریں جنھیں سند کا درجہ حاصل ہو۔ اگر کتاب پڑھنا مشکل لگے، تو کم سے کم ہسٹری پر معیاری آرٹیکلز ہی پڑھ لیں۔ سوشل سائنسز (معاشرتی علوم) کے مطالعہ سے نہ صرف آپ کی بالغ النظری اور آگہی میں اضافہ ہوگا۔ بلکہ منڈین آسٹرولوجی سمجھنے میں بہت آسانی ہوجائے گی۔ علمی دلیل اور سطحی دعوے میں فرق کرنے کا ہنر آجائے گا۔
لیکن اگر آپ تاریخ، سیاسیات اور معاشرتی علوم سے دور بھاگیں گے تو لامحالہ تُکے بازی کریں گے، یا خواہش کو پیش گوئی بنائیں گے، یا سنی سنائی بات بلاتحقیق سر پر سجالیں گے۔ اس کی تازہ ترین مثال کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد اس کے خاتمے کی پیش گوئی تھی۔ مارچ 2020 میں ایک بھارتی آسٹرولوجر نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا کہ کرونا وائرس 14 اپریل تک ختم ہوجائے گا۔ نوول کرونا وائرس، شعبہ طب کی شاخ وبائیات (virology) سے متعلق ہے۔ شاید ہی کسی پاکستانی آسٹرولوجر نے وبائیات کی الف بے جاننے کی زحمت کی ہو۔ یا کم سے کم ماضی کی دیگر وباؤوں (pandemics) کے ظہور اور اختتام کا جائزہ لیا ہو۔ اور خال ہی کسی نے سریع السیر سیارگان کے قِرانات عظیم کا مطالعہ کیا ہو۔ لیکن ہر دوسرے پاکستانی آسٹرولوجر نے 14 اپریل کی پیش گوئی کو کاپی پیسٹ کیا۔ جب اپریل کا مہینہ گزر کیا تو شرمندگی سے بچنے کے لیے بیشتر نجومیوں نے اپنی وہ پوسٹ ڈیلیٹ کردی، اور کرونا وائرس کے خاتمے کی ایک نئی تاریخ جڑ دی۔ میں نے ایک دوست سے 14 اپریل کی پیش گوئی کی تنجیمی دلیل پوچھی تو جواب ملا کہ سورج کا اشوِنی نچھتر داخلہ۔ یہ خود ساختہ دلیل، منڈین آسٹرولوجی کے بنیادی اصولوں کے بالکل اُلٹ بات ہے۔ وراہ مہیر کے مطابق سورج کا کسی نچھتر میں گردش کرنا اس مقام کو ‘است’ کردیتا ہے، جو نحس امر ہے۔
لیکن کیا کریں، ہمارے ملک میں سب کو پیش گوئیاں کا چسکا ہے۔ چاہے وہ کتنی ہی بے بنیاد کیوں نہ ہو۔ پیش گوئی کی بھوک برصغیر پاک و ہند میں بہت زیادہ ہے۔ آپ، پاکستانیوں سے لاکھ علم کی بات کریں، وہ بھینس کی طرح دم ہلاتے رہیں گے۔ کچھ ہوشیار، واہ واہ استاد جی کے ساتھ آپ کے کمالِ فن کی منافقانہ داد دیتے نظر آئیں گے۔ لیکن گھوم پھر کے پیش گوئی، بلکہ دھانسو قسم کی سیاسی پریڈکشن مانگتے نظر آئیں گے۔ ایسے ہوشیار مداحوں کے استاد، ان سے زیادہ ہوشیار ہوتے ہیں۔ رات کا خبر نامہ دیکھنے کے بعد صبح کے لیے نت نئی پیش گوئی پیش تیار رکھتے ہیں۔ اس کام کے لیے حالات حاضرہ کا تھوڑا ادراک اور استادانہ چابکدستی درکار ہے۔
لیکن ایمانداری سے سوچیے اس روش کا کیا حاصل؟

دوسرا مسئلہ: ذاتی تعصب اور پسند ناپسند

آسٹرولوجر کی اپنی جانبداری، تعصب اور جذباتیت منڈین آسٹرولوجی کی سوجھ بوجھ اور درست پیش گوئی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ آسٹرولوجر کا نظریاتی جھکاؤ اور یک رُخی ہونا اسے سچائی سے دور کردیتا ہے۔ اسے ایک عام مشاہدے کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
آپ کسی بھی پرانے یا نئے انڈین آسٹرولوجی میگزین یا گروپ کو دیکھ لیجیے۔ تقریباً ہر بھارتی، پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی منحوس پیشگوئی دیتا ملے گا۔ دوسری جانب، پاکستانی آسٹرولوجر، اپنے سینے میں غزوہِ ہند کا خواب سجائے، فتح ہندوستان کا منتظر نظر آئے گا۔ میں پچھلے تیس سالوں سے بڑے چھوٹے بھارتی آسٹرولوجرز کی پیش گوئی پڑھ رہا ہوں کہ انڈیا بہت جلد نئی سپر پاور بننے والا ہے۔ بہت سے بھارتی بابے تو یہ کہتے کہتے مر گئے، لیکن انڈیا وہیں کا وہیں ہے۔ آج بھی کسی بھارتی آسٹرولوجر سے پوچھیے تو بلاتردد جواب دے گا کہ بھارت کا مستقبل بہت روشن اور تابناک ہے، اور پاکستان کا مستقبل ہولناک ہے۔ اس خود فریبی کا کیا علاج ہوسکتا ہے۔
یہ دو طرفہ معاملہ، منڈین آسٹرولوجی کے اصولوں کے بجائے، ذاتی پسند ناپسند اور تعصب پر مبنی ہے۔ قبیلے سے پیار اور دشمن کو للکار، قدیم انسانی جبلت ہے۔ لیکن منڈین آسٹرولوجی کے معاملے میں اس جبلت سے بلند ہونے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ نظریاتی رقابت اور سیاسی رسہ کشی کا اثر امریکا-روس، چین-جاپان، برطانیہ-فرانس کے مصنفین کے مابین بھی کبھی کبھار نظر آتا ہے۔ تاہم اب وہاں کے معقول لوگوں نے بھی اس جذباتی روش اور متعصبانہ طرزِ فکر کو خیرباد کہہ دیا ہے۔
تعصب کا ایک اور پہلو بھی ہے جو درونِ خانہ پروان چڑھتا ہے۔ یعنی ایک ہی ملک کی تاریخ کو اس کے اپنے باشندے الگ الگ ڈھنگ سے دیکھتے ہیں۔ مثلاً گذشتہ دس برسوں کے دوران بھارت میں کانگریس جماعت سے بیزاری، نفرت کی حدوں کو چھونے لگی ہے۔ مودی کے حامی بہت سے بھارتی آسٹرولوجر، نہ صرف مغل بادشاہوں کے زائچوں بلکہ گاندھی، نہرو، اور اندرا کے زائچوں کو تعصب کے چشمے سے دیکھتے ہیں۔
پاکستان میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ مثلاً اگر آپ پیپلزپارٹی کے حامی ہیں تو سن 72 سے 77 تک کے دورانیے کو پاکستان کے لیے آئیڈیل وقت تصور کریں گے اور 80 کی دہائی کو بدترین دور۔ اگر زائچہ سے یہ معاملہ ثابت نہیں ہوا تو قیامِ پاکستان کا متبادل زائچہ ڈھونڈنے لگیں گے۔ باالفرض اگر آپ مسلم لیگ کو پسند کرتے ہوں تو نواز شریف کے سابقہ ادوار کو پاکستان کا بہترین وقت ثابت کریں گے۔ جہاں کہیں بات نہیں بنے گی تو بنیادی منسوبات کو رد کردیں گے۔ اگر دل میں فوج کے لیے جوش و جذبہ رکھتے ہوں گے تو مارشل ادوار کے بڑے تعمیراتی منصوبے گنوائیں گے۔ اور مریخ کے ٹرانزٹ کو دیکھ کر خوش ہوں گے۔ مختصر یہ کہ سیاسی جھکاؤ کے باعث غیر جانبداری لامحالہ متاثر ہوگی یا بنیادی زائچہ شناسی سے متعلق شکوک جنم لیں گے۔
غیر جانبداری کی میزان کو قائم رکھنا آسان نہیں۔ آپ اپنے وطن سے ضرور محبت کیجیے۔ اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کو ووٹ ضرور دیجیے۔ اپنے مسلک اور فرقے کے حامی رہیے۔ لیکن جب منڈین آسٹرولوجی پر تجزیہ اور حکم لگانے کا موقع آئے تو اپنے آپ کو ایک غیر جانبدار قاضی یا جج سمجھیے۔ سیاسی زائچہ میں جو امر جیسا نظر آئے اُسے ویسا بیان کیجیے۔ وگرنہ یہ نجوم سے انصاف نہ ہوگا۔ محبت میں ڈوب کر رائی کا پہاڑ نہ بنائیں۔ حسد میں جل ہوکر محرم کو مجرم نہ بنائیں۔

تیسرا مسئلہ: منڈین آسٹرولوجی کے لامتناہی عنوانات

منڈین آسٹرولوجی سے متعلق ایک کنفیوژن یہ کہ اس کا سر پیر سمجھ نہیں آتا۔ عام آدمی کے زائچے اور زندگی کو تو آپ لگے بندھے انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن قوموں اور ملکوں کی صورتحال مختلف ہے۔ منڈین آسٹرولوجی؛ نجوم کی وہ شاخ ہے جو بے شمار شعبوں کا مجموعہ ہے۔ یعنی عالمی معاملات، ملکی صورتحال، سیاسی حالات، طرزِ حکمرانی، عسکری اُمور، عوامی فلاح و بہبود، موسمیاتی تغیرات، زلزلے، سیلاب، زراعت، معاشیات، مالیات، انقلابات، جغرافیہ، قانون، مذہب، مصلحین، حکمران، حملہ آور، جنگ وغیرہ منڈین آسٹرولوجی کے زمرے میں آتے ہیں۔ یعنی انفرادای زندگی کے باہر جو کچھ دنیا میں اجتماعی طور پر ہوتا ہے۔ وہ سب منڈین آسٹرولوجی سے دیکھا جاتا ہے۔
جیسے جیسے انسان ترقی کرتا جارہا ہے، ویسے ویسے منڈین آسٹرولوجی کا دامن وسیع ہوتا جارہا ہے۔ نت نئی ٹیکنالوجی، نئے وسائل، نئے انداز کی جنگیں، نئے امراض، نئے موسمیاتی تغیرات، نئے رابطے کے زرائع، نئے سماجی رجحانات اور نئے سیاسی نظریات نے منڈین آسٹرولوجی کو ماضی سے زیادہ مشکل بنادیا ہے۔ اتنے سارے عنوانات کا مجموعہ واقعی “بھاری پتھر“ کی طرح ہے۔ اس لیے بہت سے طلبہ اسے صرف “چوم کر چھوڑ دیتے ہیں“۔ منڈین آسٹرولوجی کے بھاری پتھر کو اُٹھانے کی جُرات نہیں کرتے۔ چہ جائیکہ اسے سر پر تاج کی طرح سجایا جائے۔
منڈین آسٹرولوجی کے روزبروز پھیلتے عنوانات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اس کا سب سے آسان اور قابلِ عمل حل یہ کہ پہلے اپنے پسندیدہ عنوان کا انتخاب کیا جائے۔ اسی منتخب عنوان پر اپنے مطالعے اور مشاہدہ کو وسیع کرتے جائیں۔ ہوسکتا ہے کسی کو سیاسی معاملات سے زیادہ دلچسپی ہو، تو کسی کو معیشت اور بازارِ حصص سے۔ کسی کو موسم اور زراعت کی پیش گوئی میں دلچسپی ہو، تو کسی کو ماضی کے انقلابات میں۔ آپ کا فطری رجحان جس دنیاوی میدان کی جانب ہو پہلے اسی انتخاب کا کیجیے۔ وقت کے ساتھ جیسے جیسے مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ بڑھے گا، دیگر عنوانات سے ربط ازخود سمجھ آنے لگے گا۔

چوتھا مسئلہ: معیاری زرائع کا فقدان

تاریخی طور پر منڈین آسٹرولوجی کا ارتقا اور فروغ اس طرح نہیں ہوا۔ جیسے بابِ مولود (جاتک) کا ہوا ہے۔ یعنی نجومِ پیدائش (نیٹل آسٹرولوجی) پر تو لاکھوں کتب اور ہزاروں آسٹرولوجر موجود ہیں۔ لیکن منڈین آسٹرولوجی سیکھنے کے معتبر حوالے اور مستند کتب محدود ہیں۔ کتاب ڈھونڈ بھی لی تو استاد نہیں ملے گا۔ کیونکہ منڈین آسٹرولوجی کے اصول و ضوابط جاننے والے زیادہ نہیں۔ ان کی تعداد ہمیشہ محدود رہی ہے اور ان میں سے بیشتر عوامی منظر نامے پر آنا پسند نہیں کرتے۔ ماضی میں بھی منڈین آسٹرولوجی کا علم صرف راج دربار سے وابستہ مخصوص عالم اور پنڈت ہی حاصل کرتے تھے، اور ان تک عوامی رسائی آسان نہ تھی۔ ان میں سے صرف چند ممتاز ماہرین نے اس موضوع پر کتابیں تحریر کیں۔
آج بھی اس عنوان پر اعلیٰ پائے کا قدیم علمی خزانہ آسانی سے دستیاب نہیں۔ اگرچہ کتابیں محدود ہیں، لیکن موجود ہیں۔ تاہم ان کتابوں کی زبان آسان نہیں، اور انداز عوامی نہیں۔ قدیم حکماء میں بطلیموس (Ptolemy)، یونیشور (Yavanesvara)، گرگ اچاریا (Garga)، وراہ مہیر اچاریا (VarahaMihira)، الکندی (Al-Kindi)، ابومعشر (Abu-Ma’shar)، الرجال (Abenragel) اور ویڈو بوناتی (Guido Bonatti) نے نجومِ عالم کے اصولوں پر بڑی عرق ریزی کی ہے۔ لیکن آج کے آسٹرولوجرز انھیں پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ کیونکہ تحصیل علم اور تحقیق کے لیے راتیں کالی کرنی پڑتی ہیں۔ یونانی، لاطینی، سنسکرت اور عربی اصطلاحات ہضم کرنا پڑتی ہیں۔ قدیم کتب کے تراجم اور تفاسیر سمجھنا ریاضت طلب کام ہے۔
واضح رہے قدیم حکمائے نجوم کی کتب، جدید دور کے سیاسی موضوعات اور دنیاوی مسائل کا احاطہ نہیں کرتیں۔ اس کے باوجود وہ مستحکم علمی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ آپ انٹرنیٹ پر جتنے چاہیں منڈین آسٹرولوجی کے آرٹیکلز پڑھ لیں، جتنے چاہیں ویڈیوز دیکھ لیں۔ مذکورہ اساتذہ کی کتب بالاخر ان پر بھاری ثابت ہوگی۔ کیونکہ وہ کوری پیش گوئی کے بجائے علم کا مغز اور بنیادی اصول بیان کرتی ہیں۔ یاد رکھیے پیش گوئی کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے، علم امر ہوتا ہے۔

پانچواں مسئلہ: بنیادی ہیئت سے لاعلمی

نجوم کی بنیاد آسٹرونومی (یعنی ہیئت و فلکیات) پر ہے۔ زائچہ بنانے کے علاوہ منڈین آسٹرولوجی میں کئی ایسے اُمور ہیں جہاں آسٹرونومی اور مشاہدہ فلک کی اہمیت محسوس ہوتی ہے۔ انھیں آپ صرف زائچہ دیکھ کر نہیں معلوم کرسکتے۔ مثلاً سیارگان کا طلوع و غروب، خمسہ متحیرہ کا نچھتر تاروں سے قران، ثوابت (فکسڈ اِسٹارز) کا طلوع و غروب، سیارگان کا اپنے جوزھرات سے قِران، سورج گرہن اور چاند گرہن کی صورتیں وغیرہ وغیرہ۔
کمپیوٹر سوفٹ ویئر اور موبائل ایپ پر حد سے انحصار کے باعث پاکستان میں آسٹرونومی کی اہمیت پسِ پشت چلی گئی ہے۔ اصولاً منڈین آسٹرولوجی میں دلچسی رکھنے والے طلبہ کو سیارگان کے حرکات، بڑے سیارگان کے قِرانات (major-conjunctions) کے دورانیے، ان کے طول، عرض، اور میل کا علم ہونا چاہیے۔ یاد رکھیے منڈین آسٹرولوجی میں پیش گوئی کا انحصار صرف سیارے کی برج (راشی یا سائن) میں گردش پر نہیں۔ سائن پوزیشن تو سب سے عام صورت ہے اور پوری دنیا کے لیے یکساں ہوتی ہے۔
ہیئت و فلکیات (astronomy) سے لاعلمی کی حالیہ افسوسناک مثال، طلوعِ ثُریا (rise-of-Pleiades) پر مبنی پیش گوئی تھی۔ امریکا میں مقیم ایک خود ساختہ مفتی اعظم صاحب نے حدیثِ نبویؐ کو بنیاد بنا کر کرونا وائرس کے خاتمے کی پیش گوئی کی۔ اور کہا کہ ثریا 12 مئی 2020 کو طلوع ہوگا، اس لیے کرونا وائرس ختم ہوجائے گا۔ یہاں میرا اعتراض حدیث پر بالکل نہیں۔ بلکہ پیش گوئی کی بنیاد کے لیے استعمال کی گئی گمراہ کن تنجیمی دلیل اور تاریخ پر ہے۔
کیونکہ علم ہیئت اور فلکیات کی رو سے طلوعِ ثریا کی ناصرف یہ تاریخ بلکہ مئی کا مہینہ ہی غلط تھا۔ جو وقت عین غروب کا تھا، اسے طلوع کا بتایا گیا۔ امریکا میں مقیم پاکستانی مولوی صاحب نے آسٹرونومی کا مطالعہ نہیں کیا۔ چلیں خیر ہے کہ انھوں نے کبھی اسکول کالج کی شکل نہیں دیکھی۔ لیکن جب یہی پیش گوئی من و عن کئی نامی گرامی پاکستانی آسٹرولوجروں بلکہ صحافیوں نے دوہرانی شروع کی تو میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ افسوس اس بات کا ہوا کہ 12 مئی کو طلوعِ ثریا پر اصرار کرنے والے ایک نامی گرامی آسٹرولوجر، صاحبِ کتاب بھی ہیں۔ لیکن انھیں ثوابت کے سالانہ طوع و غروب کا ادراک نہیں۔
دوستوں کی اصلاح کی خاطر میں نے ثریا (Pleiades) کی بنیاد، تاریخ اور اس کے طلوع و غروب پر چند مضامین بھی لکھے۔ خدا کرے سوشل میڈیا پر میری تحریر سے کسی نوجوان نے مطالعے اور مشاہدے کی راہ لی ہو۔

چھٹا مسئلہ: سیاسی رہنماؤوں کے فرضی زائچے

یہ بہت اہم مسئلہ ہے، اور تقریباً پوری دنیا میں پایا جاتا ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ پہلا تو اخفائے راز کی خاطر جان بوجھ کر حقیقی تاریخ اور وقت چھپانا۔ اور دوسرا پہلو واقعی لاعلمی ہے۔ یعنی کسی سیاسی رہنما کے وقت پیدائش کے ریکارڈ کا سرے سے موجود ہی نہ ہونا۔
پرانے زمانے میں راجے مہاراجے اور شاہی خاندان کےجانشین اپنا اصلی زائچہ پیدائش مخفی رکھتے تھے کہ کہیں دشمن کے ہاتھ نہ لگ اور وہ زک پہنچانے کے لیے اسے استعمال نہ کرے۔ لیکن جدید دنیا اب اس خوف سے باہر نکل آئی ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں کئی ایسے سیاسی رہنما اور سرکاری افسران ہیں جن کی حقیقی تاریخ اور وقتِ پیدائش کچھ اور ہے، لیکن عوام میں کچھ اور ہی مشہور ہے۔ عرصہ دراز تک نہرو خاندان (یعنی اندرا گاندھی، راجیوگاندھی، سونیا گاندھی وغیرہ) کے من گھڑت زائچے، ہندوستان کے معتبر آسٹرولوجی میگزین میں چپھتے رہے۔ اچھے خاصے قابل جیوتشی، گمراہ کن زائچوں پر مغز ماری کرتے رہے۔ ان سیاسی رہنماؤوں کی سوانح حیات چھپنے اور ہاسپٹل برتھ ریکارڈ سے تصدیق کے بعد، ان کے حقیقی زائچے سامنے آئے۔ شُکر ہے اب ان کے درست زائچے دستیاب ہیں۔
پاکستان میں ایک عرصے تک ذوالفقار علی بھٹو کے حقیقی وقتِ پیدائش کے بارے میں لوگ اندازے لگاتے رہے۔ یہ عُقدہ اُس وقت کھلا جب بھٹو صاحب نے جیل میں ایک نامی گرامی بیوروکریٹ کے ہمراہ ایک جیوتشی سے ملاقات کی۔ سری لنکا کے معروف ماہرِ نجوم اور محقق Cyrus Abayakoon نے اپنے ایک مضمون میں بھٹو خاندان کے زائچوں پر بحث کی جو 1979-80 میں بی وی رمن کے آسٹرولوجیکل میگزین میں شائع ہوئے۔
ایک اور مثال جنرل (ر) پرویز مشرف کے زائچہ کی ہے۔ فوجی اور سرکاری دستاویزات میں ان کا سالِ پیدائش 1943 درج ہے۔ جب کہ ان کا حققی سالِ پیدائش 1942 ہے۔ یہ راز عوام پر اُس وقت آشکار ہوا جب وہ آگرہ مذاکرات کے لیے اہلِ خانہ کے ہمراہ بھارت گئے۔ وہاں دلی کی میونسپل کارپوریشن نے انھیں انکا اصلی برتھ سرٹیفیکیٹ بطور تحفہ پیش کیا۔ جس پر 11 اگست 1942 تحریر ہے۔ اس کے برخلاف سال 2000 سے 2003 تک رسالہ آئینہ قسمت کے شماروں اور جنتریوں میں پرویز مشرف کا جو فرضی زائچہ پیدائش شائع ہوتا رہا، اس کا سال بھی غلط ہے اور طالع بھی۔
سب سے زیادہ ابہام نواز شریف کے زائچوں سے متعلق ہے۔ رسالوں اور انٹرنیٹ آرٹیکلز میں چپھنے والے نواز شریف کے تقریباً تمام زائچے قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔ جس کو جو یوگ اچھا لگا، اس نے اسی حساب سے لگن تصور کر لیا۔ کے-این-راؤ (K.N. Rao) جیسے اثرورسوخ رکھنے والے آسٹرولوجر کے میگزین میں بھی نواز شریف کا زائچہ غلط دیا گیا ہے۔ جو آسٹرولوجر جاتی عمرا کی وجہ تسمیہ جانتے ہوں، شاید ان کے پاس نواز شریف کا درست زائچہ پیدائش ہو۔
سیاسی لیڈروں کے زائچہ پیدائش کے حوالے سے ایک نیا مسئلہ وجود میں آیا ہے۔ وہ دوپہر 12 بجے کا وقتِ پیدائش ہے۔ انٹرنیٹ پر اگر آپ کو دوپہر 12 بجے کا کوئی سیاسی زائچہ یا منڈین چارٹ نظر آئے ان پر آنکھ بند کر یقین نہ کریں۔ کیونکہ ویسٹرن آسٹرولوجی کی ویب سائٹس اور پورٹلز پر، جب کسی سیاسی رہنما یا celebrity کا وقت پیدائش معلوم نہیں ہو تو سوفٹ ویئر کا سسٹم ازخود دوپہر 12 بارہ بجے کا وقت تصور کرلیتا ہے۔ یعنی حقیقی وقتِ پیدائش دستیاب نہ ہونے کی صورت میں دوپہر 12 بجے کا وقت ایک فرضی متبادل ہے۔ بہت سے نوجوان بھارتی آسٹرولوجر، ویسٹرن آسٹرولوجی کی ویب سائٹس سے celebrities کا برتھ ڈیٹا کاپی کرتے ہیں۔ وقتِ پیدائش میں چند منٹ کی خود ساختہ تصحیح کے بعد ایک آرٹیکل لکھ ڈالتے ہیں کہ وہ کیوں مرا، یا کیوں جیا۔ بھارتیوں کی دیکھا دیکھی، کئی پاکستانی اپنے سوشل میڈیا وال پر وہی فرضی زائچہ کاپی پیسٹ کرلیتے۔
مجھے اپنی پریکٹس کے دوران بارہا ایسے لوگوں سے واستہ پڑا، جو بڑے یقین سے ہر نئے آرمی چیف، ہر نئے وزیر اعظم، اور ہر نئے وزیر اعلیٰ کا زائچہ پیدائش شیئر کرتے رہے۔ لیکن اب میں بہت محتاط رہتا ہوں۔ اس معاملے میں مغربی سیاسی رہنماؤوں کا رویہ یقیناً لائقِ تحسین ہے۔ خاص طور پر نئی نسل کے سیاسی رہنما۔ کیونکہ ان کی تاریخ اور وقتِ پیدائش، لائقِ اعتبار AA ریٹنگ ہوتی ہے۔

ساتواں مسئلہ: ملک کے قیام کا حقیقی زائچہ

منڈین آسٹرولوجی میں کسی سلطنت، ریاست یا ملک کا زائچہ (national/foundation-chart-of-country) نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن منڈین آسٹرولوجی صرف ملکی زائچے کا نام نہیں۔ کسی ملک کے زائچہ قیام سے اس ملک کے بارے میں ہر قسم کی مفصل آگہی نہیں مل سکتی ہے۔ اس سوال پر معروف محقق اور آسٹرولوجر کارٹر (C.E.O. Carter) نے علمی نکات اٹھائے ہیں۔ ایک ملک کے اندر مختلف قسم کے زمینی خطے ہوتے ہیں۔ مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مختلف رنگ، نسل اور مسالک کے لوگ بستے ہیں۔ ان کی زندگیوں، معاش، مزاج اور فکر میں کافی فرق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم حکمائے نجوم نے مختلف خطہ زمین اور مختلف اقوام کو مختلف سیارگان اور بروج سے منسوب کیا ہے۔ مثلاً ہزاروں سال سے ہندو تہذیب مخصوص رنگ میں رنگی ہے، جو چینیوں سے بالکل الگ ہے۔ سینکڑوں سالوں سے افغانیوں کا معاش اور کردار اپنے ہمسائے پنجاب سے جدا رہا ہے۔ عربوں کا مزاج اور انداز ایرانیوں سے مختلف رہا ہے۔ یہاں تک کہ امریکا اور یوروپ میں بسنے والے سیاہ فام، اُسی خطے کے مقامی سفید فاموں سے قدرے مختلف فکر اور رویہ رکھتے ہیں۔ یہ ملکی زائچہ سے ماورا بروجی اور کوکبی تقسیم ہے۔ اور اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

کسی ملک کا زائچہ بنانے یا بتانے سے پہلے اپنے آپ سے سوال کیجیے کہ ایک ملک کیسے وجود میں آتا ہے۔ اور نئے ملک کے وجود میں آنے سے وہاں کے عوام اور زمینی حقائق کس حد تک بدلتے ہیں؟ بیشتر پاکستانیوں نے شاید اس نکتہ پر کبھی غور نہ کیا ہو۔ کیونکہ ہم تاریخ، جغرافیے اور سیاسیات کے مطالعے پر توجہ نہیں دیتے۔ کہی سنی پر زیادہ کان دھرتے ہیں۔ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ آپ کو یہ جاننے میں مدد ملے گی، اگر کسی ملک کے بہت سارے زائچے مشہور/رائج ہوگئے ہیں تو ان میں کس زائچے کو فوقیت دی جائے۔

غور کریں تو معلوم ہوگا کہ قدیم زمانے میں کسی سلطنت کے قیام اور انہدام کا طریقہ جبر اور تشدد پر مبنی تھا۔ اگرچہ ایسا ہر جگہ، اور ہر موقعے نہیں ہوا۔ لیکن بیشتر مثالیں کچھ ایسی ہی ہیں۔
مثلا سب سے معروف صورت تو یہ تھی کسی اندرونی سرکش قبیلے یا بیرونی حملہ آور نے کمزور حکمران پر دھاوا بول دیا۔ فوجوں میں لڑائی ہوئی۔ قلعے میں قتل و غارت ہوئی۔ بادشاہ کو شکست ہوئی۔ اور نیا حکمران اقتدار میں آگیا۔ ایسی صورتحال کے لیے منڈین آسٹرولوجی میں “زائچہ اعلانِ فتح” (victory-chart) کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یعنی وہ وقت جب حملہ آور جھتہ، بادشادہ کو ہلاک کر دے اور عملاً اپنی فتح کا اعلان کرے۔
دوسری صورت کسی مخصوص حکمران خاندان کے اندر ہی انتقالِ اقتدار کا تسلسل ہے۔ ماضی میں وصیت کے بغیر وفات پانے والے بادشادہ کے جانشینوں میں اکثر فساد کھڑا ہوجاتا۔ تخت کے دعوے دار امیدوار مملکت کے اہم وزیروں اور قبائل کی حمایت حاصل کرتے (چاہے سازش سے کریں، طاقت سے یا رشوت سے)۔ جو کامیاب ہوتا وہی اگلا بادشاہ کہلاتا۔ اس کی تاجپوشی کی رسم ادا کی جاتی۔ جو نئے بادشاہ کے باقاعدہ تخت نشین ہونے کا اعلان ہوتا، جسے عوام اور خواص سب کو قبول کرنا پڑتا۔ مغل شاہی خاندان کے بادشاہوں کا تسلسل سے اقتدار میں آنا اس کی مثال ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بادشاہ مرنے سے قبل خود اپنا تخت کسی پسندیدہ جانشین (بیٹے یا بیٹی) کو عطا کردے۔ خاندانی حکومت کی جانشینی کی صورت میں “زائچہ تاجپوشی” (coronation-chart) کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ زائچہ اس وقت تک کارآمد رہتا ہےجب تک اگلا وارث تخت نشین نہ ہوجائے۔
تیسری صورت یہ کہ کسی سرزمین پر بادشاہت یا بادشاہت نما نیم جمہوری نظام قائم ہو۔ جیسے ایک زمانے میں زارِ روس اور شاہِ ایران کے دور میں تھا۔ ایک وقت آتا ہے جب ابتر معاشی حالات اور عوامی دباؤ کے سبب کوئی نظریاتی گروہ یا سیاسی جماعت یا مزدور یونین بغاوت پر اُتر آتی ہے۔ موقعہ ملتے ہے غدر برپا ہوجاتا ہے۔ عوام، باغیوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ حملہ آور کارکن محل پر ہلہ بول دیتے ہیں۔ بادشادہ کو جلاوطن یا قتل کردیا جاتا ہے۔ اہم سرکاری عمارات، اخبارات کے دفاتر اور ریڈیو پر باغیوں کا قبضہ ہوجاتا ہے۔ حامی عوام سڑکوں پر جشن شروع کردیتے ہیں۔ باغی جماعت کا سربراہ یا تو کسی عمارت پر چڑھ کا انقلاب کا اعلان کرتا ہے۔ یا فاتح باغی جماعت کے اہلکار ریڈیو سے انقلاب کا اعلان نشر کرواتے ہیں۔ انقلاب برپا ہونے کی تاریخ اور وقت اہم ہے۔ منڈین آسٹرولوجی میں “زائچہ انقلاب” (revolution-chart) کو نئی ریاست کا زائچہ قرار دیا جاتا ہے۔
چوتھی صورت یہ کہ کوئی خطہ زمین، نوآبادیاتی نظام کے ماتحت ہو۔ جیسے برصغیر پاک و ہند (سابقہ برٹش انڈیا) ماضی میں ایک بڑی برطانوی کالونی تھی۔ یہاں نام کے راجے مہاراجے تو بہت تھے۔ لیکن سکہ انگریز سرکار کا ہی چلتا تھا۔ اور انگریز کا بنایا ہوا آئین اور قانون رائج تھا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد دیگر یوروپی ممالک کی طرح برطانیہ کی کمر بھی ٹوٹ گئی۔ دوسری جانب ہندوستان (برٹش انڈیا) میں آزادی کی سیاسی جدوجہد عروج پر پہنچ گئی۔ تاجِ برطانیہ کو لامحالہ انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے مطالبات قبول کرنا پڑے۔ اس کے لیے ہندوستانی قیادت (کانگریس اور مسلم لیگ) کے مشورے سے منتقلیِ اقتدار کے قواعد و ضوابط طے ہوئے۔ وائسرے کی رائے سے آزادی کے دن اور وقت کا تعین ہوا۔ قانون سازی کی گئی۔ برطانوی پارلیمنٹ سے ایکٹ پاس ہوا۔ شاہِ برطانیہ نے اس پر مہر ثبت کی۔ اور وائسرے لارڈ ماؤنتٹ بیٹن نے ان اُمور کو اپنی نگرانی میں انجام تک پہنچایا۔ اس طرح 15 اگست 1947 نصف شب کو موجودہ بھارت اور پاکستان وجود میں آئے۔ دورِ حاضر میں سلطنتِ برطانیہ سے آزادی پانے والے درجنوں اور ممالک بھی ہیں، جنھیں انگریز سرکار نے ضابطے کے تحت مقررہ تاریخ اور وقت کو آزادی دی۔
پانچویں صورت یہ کہ اقوام متحدہ کے ممالک کی اکثریتی رائے (ووٹوں) سے کسی ملک کو آئینی اور قانونی حیثیت حاصل ہوجائے جس کی انوکھی مثال اسرائیل ہے۔ قیام اسرائیل کا زائچہ اسی بنیاد پر مبنی ہے۔
کسی نئے ملک کے وجود میں آنے کی چھٹی صورت یہ کہ وہ بطور بازو یا صوبہ بغاوت کرکے اپنے ہی ملک، نظریے اور پائے حکومت سے علیحدہ ہوجائے۔ اس صورت میں ریاستی/مرکزی فوج کے ہتھیار ڈالنے اور معاہدے پر دستخط کا وقت اہم شمار ہوگا۔ اسے “زائچہ سقوط” کہیں گے، جو اصل سے کٹ کر نئے ملک کی پیدائش کی عکاسی کرے گا۔ جیسے سقوطِ ڈھاکہ اور بنگلہ دیش کے قیام کے وقت ہوا۔
ساتویں صورت یہ کہ کوئی نوزائیدہ ریاست اپنے آپ کو جمہوریہ قرار دے یا نئے دستور کا نفاز کرے۔ اس کی بنیاد پر chart-of-proclamation-of-republicیا chart-of-promulgation-of-constitution بنایا جاتا ہے۔ اگر کسی ملک کے قیام کی تاریخ اور وقت میسر نہ ہو تو اسی زائچے کو دیکھا جاتا ہے۔ عالمی فورم پر ملکی کردار، ملکی پارلیمنٹ، الیکشن اور آئین سازی سے متعلق پیش گوئی لیے بھی یہ زائچہ دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر اور طریقے ہیں، جن کی بنیاد پر کسی ملک کے قیام کا زائچہ بنایا جاتا ہے۔ یہاں میں نے امریکا کے Declaration-of-Independence کا قصداً ذکر نہیں کیا۔ کیونکہ یہ ایک بحث طلب طویل عنوان ہے۔

کسی ملک کے قیام (formation) یا تاسیس (foundation) یا آزای (independence) یا انقلاب (revolution) کے زائچہ کے لیے عموماً اس جگہ کو مقام پیدائش کے طور پر لیا جاتا جہاں قانونی، سرکاری یا عسکری طور پر حقیقتاً نئے ملک کی بنیاد پڑی ہو۔ عام طور یہ جگہ، اس ملک کا دارالحکومت، مرکز، وفاق یا پایہ تخت ہوتا ہے۔ مثلاً قیام پاکستان کے وقت شہر کراچی، پاکستان کا دارالحکومت (capital-city) تھا۔ بوقتِ آزادی بانی پاکستان قائد اعظم، آزادی کے تمام سرکردہ رہنما اور قانون ساز اسمبلی کراچی میں موجود تھی۔ اس لیے قیام پاکستان کے زائچہ کے لیے مقامِ پیدائش کے طور پر کراچی ہی کو لیا جائے گا۔ قیام پاکستان کے بیس برس بعد 14 اگست 1967 وفاقی درالحکومت اسلام آباد منتقل ہوگیا۔ جدید دنیا میں دارلحکومت بدلنے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ کسی ملک کا دارالحکومت بدلنے سے اُس ملک کا زائچہ تاسیس یا زائچہ قیام نہیں بدلتا۔ اس لیے پاکستان کے معاملے میں زائچہ پیدائش، ادوار کواکب، پروگریشن، ڈائریکش وغیرہ کے لیے کراچی ہی کو بنیاد بنایا جائے گا۔ تاہم ٹرانزٹ (گردشِ کواکب) اور مہورت وغیرہ کے لیے موجودہ دارالحکومت اسلام آباد کو لیا جائے گا۔ فرض کیجیے ایک شخص ملتان میں پیدا ہوا، لیکن جوانی میں لاہور جا بسا۔ اس تبدیلیِ رہائش سے اس شخص کا اصلی مقام پیدائش نہیں بدلے گا۔

ایک اور مثال ملاحظہ کیجیے۔ جب 4 جولائی 1776 کو ریاست ہائے متحدہ امریکا (USA) کی بنیاد رکھی گئی تو مقام فلاڈیلفیا (Philadelphia) شہر تھا۔ واشنگٹن ڈی سی شہر بہت بعد میں امریکا کا وفاقی دارلحکومت بنا۔ اس لیے امریکا کے زائچہ تاسیس کے لیے مقام پیدائش کو طور پر فلاڈیلفیا (Philadelphia) کو تصور کیا جاتا ہے۔ آپ امریکا کا کوئی بھی زائچہ تاسیس دیکھ لیں، مقام پیدائش فلاڈیلفیا تحریر ہوگا، واشنگٹن ڈی سی نہیں۔ کیونکہ ملکی دارالحکومت بدلنے سے اس ملک کے قیام کا زائچہ تبدیل نہیں ہوتا۔ لیکن ماڈرن ویسٹرن آسٹرولوجی میں سالانہ زائچہ یعنی Solar-Return-Chart بنانے کے لیے موجودہ دارلحکومت کو لیا جاتا ہے۔

ایک اور بات یاد رہے کہ اگر کوئی ملک اپنا یوم جشنِ آزادی، مختلف تاریخ کو منانے لگے تو اس سے اصل زائچہ نہیں بدلتا۔ جشن تو آپ جس دن چاہے منالیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسے کوئی شخص (قصداً یا سہواً)، اپنی سالگرہ کسی اور دن منانے لگے۔ سالگرہ یا Birth-day-celebration بدلنے یا کاغذات/تاریخ میں رد و بدل سے حقیقی زائچہ پیدائش نہیں بدل جاتا۔

ایک بار پھر وضاحت کرتا چلوں کہ منڈین آسٹرولوجی صرف قیامِ ریاست (یعنی نئے ملک کی پیدائش، آزادی یا انقلاب) کے تن تنہا زائچے کا نام نہیں۔ قیامِ ملک کے ساتھ حاکمِ وقت (یعنی وزیراعظم یا باختیار صدر یا بادشاہ، یا ملٹری ڈکٹیٹر) کا زائچہ بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سالانہ زائچے، تحویلی زائچے، قِرانات، ادوار، اور گردش سیارگان اپنا اپنا اثر ڈالتے ہیں۔
ہمارے ہاں قیامِ پاکستان کے زائچے سے متعلق کافی ابہام پایا جاتا ہے۔ کوئی 15 اگست 1947 کا زائچہ لیتا ہے تو کوئی 14 اگست 1947 کا۔ کوئی صبح کا وقت لیتا ہے تو کوئی نصف شب کا۔ اور کوئی اپنی مرضی کا وقت ایجاد کرلیتا ہے۔ کچھ ماہرین 15 اگست 1947 کی صبح قائد اعظم کے زائچہ حلف بطور گورنر جنرل کو قیامِ پاکستان کا زائچہ تصور کرتے ہیں۔ کچھ مشکوک ذہن کے حامل تو سقوطِ ڈھاکہ کو پاکستان کی پیدائش نو بنادیتے ہیں۔ میں آیندہ مضمون میں تفصیلاً پاکستان کے زائچے پر علمی دلائل دوں گا۔ تاکہ ابہام کو قیاس آرائیوں کے بجائے دلیل، ثبوت اور شواہد سے دور کیا جاسکے۔

میری تحریر کا بنیادی مقصد صرف اتنا ہے کہ آپ اپنے سے سوال کرنے لگیں۔ یہ بالکل ضروری نہیں کہ آپ میری بات آنکھ بند کرکے مان لیں۔ لیکن اتنی امید ضرور کرتا ہوں کہ کھلے دل و دماغ سے دلائل اور شواہد کو دیکھیں۔ اسے عقل کی کسوٹی پر پرکھیں۔ اور پھر اختیار یا انکار کا فیصلہ کریں۔

3 تبصرے

  1. عمران بھائی میں نے تو منڈین آسٹرولوجی کا نام ہی پہلی دفعہ سنا ہے
    بہت اعلیٰ اور بہت تفصیل سے آپ نے روشنی ڈالی ہے
    بالکل سر اب سمجھ آ رہی ہے کہ اسٹرولوجی واقع ہیں بچوں کا کھیل نہیں

  2. Most detailed article on one of toughest topic in Astrolohy. Thanks a lot Imran bhai I learnt many new things and as I have studied this subject exhaustively but dont practice as its not my type of pudding.

    So what I had read until now and that is fair enough I can say confidently that this is the best article on this subject..

    Once again much appreciations for u ..

    May we learn more from ur research and experience ..

  3. اتنے وقیع، شاندار، تحقیقی اور تنجیمی لوازم کے تحت لکھے گئے مضمون پر ہدیہ تبریک قبول کیجیے۔ پہلی دفعہ احساس ہوا کہ نجوم فٹ پاتھ پر بیٹھے نیم خواندہ جوگیوں کا کام ہے نہ میڈیاچینلز پربیٹھ کردھڑا دھڑ پیشینگوئیوں سے کچھ علاقہ رکھتا ہے۔یہ تحقیق، وسعتِ مطالعہ، معروضی تجزیہ اور برسوں کی جاں گسل ریاضت کا رہینِ منت ہے ۔ پاکستان میں یہ مضمون اگر جامعات کی سطح پر کبھی پڑھایا گیا تو آپ جیسے صاحب علم کی ہی معرفت ممکن ہوگا

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں