نجومِ رجوع اور وقتی زائچہ

0
1928

علم نجوم کا ایک اہم باب وقتی زائچہ ہے۔ اسے نجوم رجوع بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کی بنیاد کسی بھی اہم سوال کے جواب کی تلاش ہے (خاص طور پر وہ سوالات جن کا براہِ راست تعلق سوال پوچھنے والے سے منسلک ہو، اور جو واقعی لاشعوری طور پر سائل کے ذہن میں موجود ہو)۔ ایک شخص (چاہے اس کا زائچہ پیدائش دستیاب ہو یا نہ ہو)، نجومی سے مشاورت کے لیے رجوع کرسکتا ہے۔ بوقت سوال جو زائچہ بنایا جاتا ہے، اسے زائچہِ رجوع یا وقتی زائچہ (horary_chart) کہتے ہیں۔ انڈین آسٹرولوجی میں اسے پرشن کنڈلی کہا جاتا ہے۔

وقتی زائچہ بنانے کے لیے وہ وقت لیا جاتا ہے، جب سوال نجومی تک پہلی بار پہنچے۔ اور وہ مقام لیا جاتا ہے، جس شہر میں نجومی خود موجود ہو (چاہے سوال براہِ راست نجومی کے روبرو پوچھا گیا ہو، یا بذریعہ قاصد، فون، یا انٹرنیٹ موصول ہوا ہو)۔

قدیم ماہرین کے مطابق ایک نجومی کو اپنے آپ سے (بطور سائل) سوال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اپنے ذاتی مسئلہ کا حقیقت پسندی اور غیرجانبداری سے تنجیمی تجزیہ کرنا مشکل کام ہے۔ لیکن نئے ماہرین نجوم اس پرانے اصول کو زیادہ خاطر میں نہیں لاتے۔

سوال چاہے جس نے بھی کیا ہو۔ اگر سوال کی نوعیت بہت اہم ہو، جیسے شادی کا فیصلہ، جائیداد کی خرید و فروخت، بڑی مالی لین دین، تعلیم کے شعبہ کا انتخاب، تبدیلیِ رہائش وغیرہ تو وقتی زائچہ کے ہمراہ، سائل کا زائچہ پیدائش ضرور مدِنظر رکھنا چاہیے۔

وقتی زائچہ کے تجزیہ اور نتیجہ اخذ کرنے کے بہت شمار اصول و قواعد ہیں۔ تاہم میری نظر میں اس حوالے سے پانچ اہم مراحل یہ ہیں۔

1۔ سائل اور سوال کی تشخیص
2۔ دلیلِ سائل اور حاجت میں تعلق
3۔ قبضہ اور قبول
4۔ قوت و ضعف
5۔ تعینِ وقت

پہلا مرحلہ: سائل  اور سوال کی تشخیص

وقتی زائچہ شناسی کا پہلا قدم سائل اور سوال کی جانچ پڑتال ہے۔ انگریزی کتب میں وقتی زائچہ کے قابلِ تجزیہ اور قابلِ فیصلہ ہونے کے لیے radical کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہاں ریڈیکل (radical) سے مراد بنیادی نہیں، بلکہ  fit_to_be_judged ہے۔ آیا سوال، ایمانداری اور نیک نیتی سے کیا ہے۔ آیا سوال کرنے والے کا مقصد ہنسی مذاق یا بیکار کا تجسس تو نہیں۔ آیا سوال کرنے والے کا مقصد نجوم یا نجومی کی توہین تو نہیں۔ آیا سوال، سائل سے براہِ راست منسلک ہے یا نہیں۔ انھیں جاننے کے کئی اصول و قواعد ہیں۔ تاہم فی زمانہ ان پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ عملی طور پر ایک آسٹرولوجر وقتی زائچہ بنانے کے بعد سائل اور حاجت سے منسوب سیارگان کی شناخت کرتا ہے۔

دلیل سائل (Querent)

یہاں سائل سے مراد نجومی سے سوال پوچھنے والا شخص ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو یا جوان۔ وقتی زائچہ میں دلیلِ سائل (Querent)  وہ سیارہ ہوتا ہے جو سوال پوچھنے والے یا سوال سے متعلق شخص سے منسوب ہو۔ عام طور پر پہلے گھر، پہلے گھر کا مالک (1st_lord)، اور قمر (Moon) کو دلیلِ سائل کہا جاتا ہے۔ ان تینوں (پہلے گھر، پہلے کے مالک اور قمر) میں سے جو زیادہ نمایاں ہو اسے فوقیت دی جاتی ہے۔ تاہم قمر اور اسکی نظرات کو ہر صورت دیکھا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر وقتی زائچہ میں طالع سنبلہ (Virgo) ہو، اور کلائنٹ نے سوال اپنی نوکری، اپنی شادی، اپنی جائیداد، اپنے مقدمے، اپنے کاروباری فائدے نقصان سے متعلق پوچھا ہو تو اس مثال میں دلیلِ سائل (Querent) طالع سنبلہ کا مالک عطارد (Mercury) ہوگا۔ عطارد کے ہمراہ سائل سے فطری منسوب سیارہ قمر بھی دلیلِ سائل ہوگا۔ کیونکہ قمر اور اسکی نظرات کو ہر سوال میں دیکھا جاتا ہے۔

اسی طرح اگر وقتی زائچہ میں طالع میزان (Libra) ہو تو دلیل سائل برج میزان کا مالک زہرہ (اور قمر) ہوگا۔ باالفرض اگر وقتی زائچہ میں طالع عقرب (Scorpio) ہو تو دلیل سائل عقرب کا مالک مریخ (اور قمر) ہوگا۔  اور اگر وقتی زائچہ میں طالع قوس (Sagittarius) ہو تو دلیل سائل برج قوس کا مالک مشتری (اور قمر) ہوگا۔  دلیلِ سائل معلوم کرنے کے لیے یہی طریقہ ہر اُس سوال کے لیے ہوگا جہاں سائل نے اپنے متعلق سوال کیا ہو۔ یعنی پہلا گھر، پہلے گھر کا مالک، اور قمر دلیلِ سائل ہیں۔

مذکورہ بالا طریقہ عام معیار ہے جہاں سوال، سائل کے اپنے معاملات سے متعلق ہو۔ تاہم بسا اوقات سوال، سائل کی  اپنی ذات سے متعلق نہیں ہوتا بلکہ اپنے کسی قریبی رشتے دار، یا قرابت دار سے متعلق ہوتا ہے۔ مثلاً ایک بزرگ شخص (کلائنٹ) نے آسٹرولوجر سے سوال پوچھا کہ اس کے بیٹے کو نوکری کب ملے گی۔ یہاں سوال، بیٹے کی نوکری سے متعلق ہے۔ سوال کرنے والے کی اپنی نوکری سے متعلق نہیں۔ فرض کریں اس کے وقتی زائچہ میں طالع سنبلہ (Virgo) ہے۔ تو اس مثال میں دلیل سائل پانچواں گھر اور پانچویں کا مالک ہوگا (کیونکہ بیٹا son خانہ اولاد پانچویں گھر سے منسوب ہے)۔ طالع سنبلہ سے پانچواں گھر جدی (Capricorn) ہے۔ لہٰذا اس مثال میں دلیل سائل (Querent) جدی کا مالک زحل (Saturn) ہوگا۔ زحل کے ہمراہ قمر کو بطور فطری دلیلِ سائل لیا جائے گا۔ جبکہ حاجت (مطلوب و مقصد)، بیٹے کی نوکری/پیشہ سے متعلق ہے۔ اس لیے پانچویں گھر سے دسواں گھر گنیں گے۔ جو طالع سے دوسرا گھر بنتا ہے۔

لیکن اگر سوال، کسی قاصد (messenger) یا غیر متعلقہ فرد کے ذریعے سے آسٹرولوجر تک پہنچا ہو تو پھر طالع اور حاکمِ طالع ہی کو دلیلِ سائل (Querent) تصور کیا جائے گا۔

دلیل حاجت (Quesited)

یہاں حاجت سے مراد سائل کا مقصد یا مطلوب ہے۔ یعنی جس کی چاہت ہو اس معاملہ سے منسوب زائچہ کا گھر اور گھر کا مالک سیارہ دلیلِ حاجت کہلاتا ہے۔ وقتی زائچہ کے بارہ گھروں اور ہفت سیارگان مختلف منسوبات کے حامل ہیں۔ اس لیے مختلف سوالات کے لیے دلیلِ حاجت مختلف سیارگان ہوں گے۔ مثلاً اگر سوال، سائل کی اپنی شادی یا منگنی سے متعلق ہو تو وقتی زائچہ کے طالع سے ساتویں گھر میں قابض سیارہ، ساتویں کا مالک، اور زہرہ دلیل حاجت ہیں۔ اگر سوال، سائل کی اپنی آمدنی یا دولت سے متعلق ہو تو طالع سے دوسرے گھر میں قابض سیارہ، دوسرے کا مالک، اور مشتری دلیل حاجت بن جائیں گے۔ حاجت (Quesited) سے متعلق گھر کے قابض، گھر کے مالک اور منسوبی سیارہ میں سے جو زیادہ نمایاں ہو اسے فوقیت دی جاتی ہے۔

بسا اوقات سوال اپنے معاملات سے متعلق نہیں ہوتا۔ بلکہ حاجت یا خواہش، سائل سے براہِ راست منسلک کسی اور شخص سے متعلق ہوتی ہے۔ اگر کلائنٹ نے سوال، اپنی ذات کے بجائے کسی رشتے دار یا قریبی دوست کے حوالے سے کیا ہو تو دلیلِ سائل اور دلیلِ حاجت مختلف ہوگا۔ بشرطیکہ تعلق براہِ راست ہو۔ مثال کے طور پر ایک بزرگ خاتون (کلائنٹ) نے آسٹرولوجر سے پوچھا کہ اس کی بیٹی کی شادی کب ہوگی۔ فرض کریں کہ وقتی زائچہ میں طالع سرطان (Cancer) ہے۔ اس صورت میں دلیلِ سائل، طالع سرطان سے پانچویں گھر کا برج عقرب اور اس کا مالک مریخ (Mars) ہوگا۔ کیونکہ سوال، سائل کی اپنی بیٹی خانہ پنجم (5th) سے متعلق ہے۔ جبکہ دلیل حاجت (Quesited) گیارھواں گھر اور اس کا مالک ہوگا۔ یعنی پانچویں سے ساتواں (اولاد کی شادی)، جو طالع سے گیارھواں گھر بنتا ہے۔ اس مثال میں طالع سرطان سے گیارھویں گھر کا برج ثور (Taurus) اور مالک زہرہ (Venus) دلیلِ حاجت (Quesited) ہے۔

وقتی زائچہ میں آپ چاہے دلیل سائل کی پہچان کرنا چاہتے ہوں یا دلیل حاجت کی۔ متعلقہ گھر، گھر کے مالک اور منسوبی سیارہ میں سے جو زیادہ نمایاں ہو، حکم لگانے کے لیے اسے فوقیت دی جاتی ہے۔ یہاں نمایاں سے میری مراد سیارہ کا قوی الحال ہونا، مسعود الحال ہونا، ناظر یا منظور ہونا، قابل یا مقبول ہونا ہے۔ ان اصطلاحات کی وضاحت مضمون کے چوتھے حصہ میں موجود ہے۔

وقتی زائچہ اور آسٹرولرجر

نجوم کی مشق آسان کام نہیں۔ ضروری نہیں کہ نجومی کا دل دماغ ہر وقت یکسو ہو۔ اور طبیعت ہر وقت حاضر ہو۔ نجی مصروفیت، ذہنی تھکاوٹ یا ذاتی پریشانی کے باعث نجومی کا تجزیہ اور فیصلہ غلط بھی ہوسکتا ہے۔ وہ بھی آخر انسان ہے۔ اس حوالے سے قدیم ماہرین نے چند اصول بتائے ہیں۔

اگر وقتی زائچہ کے ساتویں گھر میں بوقت شب اگر زحل قابض ہو (بغیر سعد سیارہ کی نظر کے)؛ یا وقتی زائچہ کے ساتویں گھر میں بوقت دن اگر مریخ قابض ہو (بغیر سعد سیارہ کی نظر کے)؛ یا وقتی زائچہ کے ساتویں گھر کا مالک سیارہ بذاتِ خود راجع/محترق ہو کر ساقط النظر گھر میں ہو تو آسٹرولوجر کو وقتی زائچہ پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ کیوں؟ کیونکہ روایتی طور پر ساتواں گھر، مسؤل (جواب دینے والے) آسٹرولوجر سے منسوب ہے۔ ایسی صورت میں آسٹرولوجر کے اپنے تجزیے اور نتیجہ میں غلطی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ باالفرض اگر قمر مذکورہ زحل یا مریخ سے مقابلہ یا تربیع بھی رکھتا ہو تو کلائنٹ (سائل)، جواب دینے والے آسٹرولوجر کا مشورہ نہیں مانے گا۔ یا دونوں میں اختلاف پیدا ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ استثا (exception) اُن سوالات کے لیے ہے جو وقتی زائچہ کے ساتویں گھر سے فطری طور پر منسوب نہ ہوں (مثلا شریکِ حیات، شادی، منگنی، تجارتی لین دین، مفرور غائب شخص، نامعلوم چور وغیرہ)۔ اگر سائل کا سوال، ساتویں گھر سے متعلق ہو تو جواب دینے میں کوئی حرج نہیں۔

تجزیہ میں تضاد اور ابہام

نجوم رجوع (horary) کا ارتقا مختلف ادوار اور مختلف خطوں میں ہوا ہے۔ آج ہمیں جو اوراقِ نجوم میسر ہیں، انھیں کسی ایک منطقی یا ماہر نے ترتیب نہیں دیا۔ ان میں جدید اور قدیم، مشرقی اور مغربی سب آراء شامل ہیں۔ اس لیے ہمیں مختلف مکاتبِ نجوم کی تحریروں میں کافی تفاوت معلوم ہوتا ہے۔ میڈیا کی زبان میں کہا جائے تو سب ایک پیج پر نہیں۔

مثال کے طور پر یہ تین اہم تاریخی کتب (بُک آف نائن ججز، کرسچن آسٹرولوجی، اور تاجک نیل کنٹھی پرشن تنتر) کم و بیش ایک ہی فکری پس منظر سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود ان میں پیش کردہ اصولوں کی باریکیوں میں فرق ہے۔ بہرحال یہ تینوں کافی مستند کتب ہیں۔

اگر آپ وقتی زائچہ کے قدیم اصولوں کو جدید زندگی کے تقاضوں کے مطابق سمجھنا چاہتے ہیں، تو مندرجہ ذیل کتابیں یقیناً مددگار ثابت ہوں گی۔

وقتی زائچہ (Horary) پر مبنی ان کتب میں مستند اصول، آسان تشریحات اور عملی مثالیں موجود ہیں۔

لیکن ظاہر ہے مختلف ماہرین اپنا اپنا نکتہ نظر پیش کرتے ہیں۔ نجومِ رجوع کے پرانے ماخذوں میں چند ایسے سوالات اور ضمنی سوالات دیے ہیں، جن کے لیے کوئی خاص گھر یا خاص سیارہ منسوب نہیں کیا گیا۔ بلکہ چند لگے بندھے دلائل (یوگوں) یا چند سیارگان کی نشست و برخاست کی مدد سے ان کا جواب دینے کا اشارہ ملتا ہے۔ کچھ ضمنی سوالات کا جواب صرف قمر کے اتصال اور انصراف سے دیا گیا ہے۔ کچھ سوالات ایسے ہیں جن کا جواب سہائم (Lots) کی مدد سے دیا گیا ہے۔ اور کچھ سوالات ایسے ہیں، جو پرانے زمانے کے جاگیردارانہ یا قبائلی نظامِ زندگی میں تو شاید اہمیت رکھتے تھے۔ لیکن انھیں جدید جمہوری معاشرے میں  پوچھنا نازیبا اور ناگوار سمجھا جاتا ہے۔

ایک اور کنفیوژن اُس مخصوص طریقہ سے وابستہ ہے، جو صرف اوتاد (angular_significations) پر مبنی ہے۔ یہ وقتی زائچہ شناسی کا ایک قدیم طریقہ ہے، جو فارس عرب نجوم کی کتب میں پایا جاتا ہے۔ جہاں بہت سے اہم سوالات کو صرف چار اوتار (As, Mc, Ds, Ic) کی مدد سے بیان کیا گیا ہے۔ نجوم کے بہت سے طلبہ کو یہ بات عجیب لگے گی کہ صرف چار گھروں سے ہر اہم موضوع کو کیسا برتا جاسکتا ہے۔

وقتی زائچہ کے حوالے سے ایک اور ابہام، قمر سے متعلق ہے۔ ویسے تو قمر ہر وقتی زائچہ میں ایک اہم دلیلِ سائل (significator_of_querent) ہے۔ لیکن کئی سوالات ایسے ہیں، جہاں قمر دلیلِ حاجت (significator_of_quesited) بھی بن جاتا ہے۔ ایسا عموماً کسی “غائب یا گمشدہ” سے متعلق سوال میں ہوتا ہے۔

وقتی زائچہ میں بعض اوقات ایسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے، جہاں ایک ہی سیارہ، صاحبِ خانہ سائل (_lord_of querent_house)، اور صاحبِ خانہ حاجت (lord_of_quesited_house) ہوتا ہے۔ مثلاً روزگار سے متعلق سوال ہو اور طالع حوت ہو (جہاں پہلے گھر حوت کے ساتھ دسویں گھر قوس کا مالک بھی مشتری ہے)۔ حصولِ دولت کا سوال ہو اور جدی طالع ہو (یوں خانہ دولت دلو کا مالک بھی زحل بن جاتا ہے)۔ یا جہیز سے منسلک سوال ہو اور طالع میزان ہو (جہاں آٹھویں گھر ثور یعنی خانہ مالِ زوج  و جہیز کا مالک بھی زہرہ ہے)۔ یا جائیداد سے متعلق سوال ہو اور جوزا طالع ہو (اس طرح خانہ زمین و جائیداد کا مالک بھی عطارد بن جاتا ہے)۔ ایسی صورت میں قمر بنیادی دلیل سائل کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے، اور سوال سے منسوب فطری سیارہ بنیادی دلیلِ حاجت۔ تاہم اگر خانہ سائل اور خانہ حاجت میں کوئی سیارہ گھر کے درجات سے متصل ہو تو اسے مساوی اہمیت دینی چاہیے۔

وقتی زائچہ سے منسلک ایک اور ابہام مشتق بیت یعنی ڈیری ویٹیو ہاؤس (derivate_house) کا ہے۔ بعض ماہرین کثرت سے مشتق کے مشتق گھر (derivative_of_derivate_house) نکالتے ہیں۔ جبکہ بعض ماہرین اسے بالکل نظرانداز کردیتے ہیں۔ اصولاً سائل کا تعلق متعلقہ شخص سے براہِ راست رشتہ ہو تو مشتق گھر دیکھنا چاہیے۔ مثلاً اگر سائل، اپنی اولاد، اپنی شریک حیات، اپنے والدین یا اولاد، یا اپنے ملک کے حکمران سے متعلق کرے تو منسوب گھر اور مشتق گھر دونوں کو دیکھنا چاہیے۔ جیسے اگر سوال اپنے سگے بھائی کی جائیداد کا ہو تو تیسرے گھر اور تیسرے سے چوتھے یعنی چھٹے گھر کو دیکھنا چاہیے۔ اگر اپنی والدہ کی بیماری کا سوال ہو تو والدہ سے منسوب چوتھے گھر کے ہمراہ چوتھے سے چھٹے یعنی نویں گھر کو دیکھنا چاہیے۔ تاہم اگر سوال کسی غیر منسلک فرد یا امر سے متعلق ہو تو براہ راست سوال سے منسوب گھر کو دیکھنا چاہیے۔ خواہ مخواہ مشتق گھر نکالنا بے سود ہے۔

مشاہدہ میں آیا ہے کہ سوال جس گھر سے منسوب ہو، اس گھر میں اہم سیارہ یا قمر قابض ہوتا ہے۔ چاہے سوال، سائل نے اپنے متعلق پوچھا ہو، یا کسی اور سے متعلق۔ مثلاً چاہے سوال بھائی کے پروفیشن کا ہو، یا دوست کے پروفیشن کا ہو، یا شوہر کے پروفیشن کا ہو، وقتی زائچہ میں طالع سے دسواں گھر ابھر کر سامنے آتا ہے۔ کیونکہ دسواں گھر، بطور مجموعی خانہِ معاش ہے، اور پیشے (پروفیشن) سے منسوب ہے۔

دوسرا مرحلہ: درجاتی تعلق اور وضع فلکی

وقتی زائچہ شناسی، دراصل دلیلِ سائل اور دلیل حاجت کے درمیان تعلق، تلاش کرنے کا نام ہے۔

دلیلِ سائل اور دلیلِ حاجت میں تعلق، “نظر” (aspect) کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے؛ باہمی/متعلقہ گھروں میں “قبضہ” (placement) کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے؛ اور “قبول” (reception) اور “دفع” کی صورت میں بھی (جو نظر اور قبضہ کا مجموعہ ہے)۔

مثلاً اگر کلائنٹ کا سوال اپنی شادی سے متعلق ہو تو پہلے کے مالک کا ساتویں کے مالک سے تعلق دیکھا جائے گا۔ اگر سوال اپنے بھائی کی شادی سے متعلق ہو تو تیسرے کے مالک کا نویں کے مالک سے تعلق دیکھا جائے گا۔ اگر سوال اپنے بیٹے کی شادی سے متعلق ہو تو پانچویں کے مالک کا گیارھویں کے مالک سے تعلق دیکھا جائے گا۔ علی ھذا القیاس۔ وقتی زائچہ کے تجزیے کا خلاصہ دلیلِ سائل اور دلیلِ حاجت میں تعلق کی پہچان ہے۔۔

تاہم عملی تجزیے میں سیارگان کے مابین تعلق ہمیشہ دو جمع دو چار کی طرح آسان نہیں ہوتا۔ وقتی زائچہ میں یہ تعلق درجاتی ہوتا ہے۔ جو سیارگان کی ڈگریوں پر منحصر ہے۔ اس کی مختلف اشکال اور اقسام ہیں۔ سیارگان کے درمیان تعلق کو نجوم کی زبان میں وضعِ فلکی (planetary_configurations) کہا جاتا ہے۔

قدیم ماہرینِ نجوم نے جو وضعِ فلکی بیان کیے ہیں، ان کا ماخذ قدیم یونانی نجوم اور فارس عرب نجوم ہے۔ ہندی نجوم کی شاخ تاجک (Tajika) شاشتر میں کم و بیش یہی فہرست شودس یوگ کے نام سے موجود ہے۔ تاہم اگر آپ عربی کتب اور انکے تراجم کا بغور جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ دورِ وسطی کے ہندوستانی ماہرین اپنے تاجک شاستر میں بنیادی اوضاعِ فلکی کو قدرے پیچیدہ یوگوں کی صورت میں بیان کیا ہے۔ تاجک نجوم کی ہندی کتب میں وضع فلکی کے ہمراہ بہت سی اضافی شرائط (extra_conditions) کا خواہ مخواہ اضافہ کردیا گیا۔ اس کے برعکس یونانی، عربی اور یوروپی کتب میں ایسا کچھ نہیں۔

اس لیے میری رائے میں تاجک شاستر میں موجود مواد بہت زیادہ مستند نہیں ہے۔ اس کے بجائے Benjamin_Dykes کی کتاب Introduction_to_Traditional_Astrology:_Abu_Mashar and_Al-Qabisi یا The_Forty_Chapters_of_Al-Kindi کا مطالعہ کہیں زیادہ سودمند ثابت ہوگا۔ لیکن ان تراجم کو پڑھنے کے لیے کافی ریاضت درکا ہے۔ کیونکہ بینجمن ڈایکس کا انداز عالمانہ اور اسلوبِ ترجمہ لفظ بہ لفظ ہے۔

وقتی زائچہ میں دلیل سائل (Querent) اور دلیل حاجت (Quesited) کی نشاندہی کے بعد اہم کام، ان دونوں (سائل اور حاجت سے منسلک سیارگان)  کے درمیان تعلق دریافت کرنا ہے۔ ابتدا میں یہ مرحلہ کافی مشکل لگتا ہے۔ بیشتر پاکستانی نجومی زائچہ پڑھتے وقت سیارگان کے درجات (ڈگری) پر توجہ نہیں دیتے۔ کیونکہ انھیں اس کی عادت نہیں ہوتی۔

لیکن وقتی زائچہ میں سیارگان کے درمیان تعلق اور وضع فلکی کی بنیاد دراصل سیارگان کے درجات ہیں۔ آپ جتنا زیادہ درجات (ڈگری) پر غور کریں گے، اتنی آپ کی گرفت مضبوط ہوگی۔

وقتی زائچہ میں سیارگان کے درمیان تعلق کی دو بنیادی حالتوں کا نام اتصال اور انصراف ہے۔

اِتصال (application) کا آسان مطلب ہے کہ دو سیارے نظری یا جسمانی طور پر ملنے جارہے ہیں۔

اِنصراف (separation) کا آسان مطلب ہے کہ دو سیارے نظری یا جسمانی طور پر بچھڑنے جارہے ہیں۔

یونانی نجوم کی بیشتر وضعِ فلکی، اور تاجک شاستر کے بیشتر یوگ دراصل اسی اتصال اور انصراف کی ضمنی اور مشروط کیفیتوں کے نام ہیں۔ بنیاد سیارگان کے درمیان تعلق ہی ہے۔ جو سیارہ اتصال کررہا ہو اسے متصل (applied) کہتے ہیں۔ اور جو سیارہ انصراف کررہا ہو اسے منصرف (separated) کہتے ہیں۔ متصل اور منصرف کے الفاظ گرامر کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ ورنہ پس پردہ اصول وہی ہے۔ اگر سائل کا سیارہ، حاجت یا مقصد کے سیارہ سے متصل ہورہا ہے تو کام ہوگا۔ اگر منصرف ہورہا ہے تو کام نہیں ہوگا۔

اتصال اور انصراف کو عملاً سمجھنے کے لیے آپ کو سیارگان کی رفتار کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے۔ نجوم میں زحل، مشتری، مریخ، شمس، زہرہ، عطارد، قمر کو مشترکہ طور پر “ہفت سیارگان” کہا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہفت سیارگان میں سے کچھ زیادہ تیز چلتے ہیں، کچھ اوسط رفتار سے چلتے ہیں، اور کچھ سُست رفتار سے چلتے ہیں۔ اردو فارسی اور عربی کی پرانی کتب میں تیزرفتار سیارہ کے لیے “سریع السیر” کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ جسے انگریزی میں سے swift-moving کہتے ہیں۔ جب کہ سُست یا دھیمی رفتار سے چلنے والے سیارگان کو “بطیع السیر” slow-moving کہا جاتا ہے۔

قمر (Mo)، عطارد (Me) اور زہرہ (Ve) تیزرفتار یعنی سریع السیر سیارگان ہیں۔

مریخ (Ma)، مشتری (Ju) اور زحل (Sa) سست رفتار یعنی بطیع السیر سیارگان ہیں۔

شمس (Su) لگی بندھی رفتار (کم و بیش ایک ڈگری روزانہ کے حساب) سے حرکت کرتا ہے۔

نودریافت شدہ سیارگان یورنس، نیپچون اور پلوٹو بہت ہی زیادہ سُست رفتار سیارے ہیں۔ انھیں عموماً وقتی زائچہ میں شامل نہیں کیا جاتا (تاآنکہ سوال سیاسی، سماجی یا اجتماعی نوعیت کا ہو)۔ راس و ذنب یعنی راہو کیتو (nodes) سے متعلق حتمی رائے موجود نہیں۔ کچھ آسٹرولوجر انھیں وقتی زائچہ میں دیکھتے ہیں، اور کچھ نہیں۔ یہ آپ کی اپنی صوابدید اور انتخاب پر منحصر ہے۔

ہفت سیارگان کو بلحاظِ رفتار اس طرح ترتیب دیا جاسکتا ہے۔ قمر (Moon) – عطارد (Mercury) – زہرہ (Venus) – شمس (Sun) – مریخ (Mars) – مشتری (Jupiter) – زحل (Saturn)۔

مذکورہ بالا ترتیب زبانی یاد ہونی چاہیے۔ اس ترتیب کے مطابق قمر، عطارد سے زیادہ تیز رفتار ہے۔ عطارد، زہرہ سے زیادہ تیز رفتار ہے۔ زہرہ، شمس سے زیادہ تیز رفتار ہے۔ شمس، مریخ سے زیادہ تیز رفتار ہے۔ مریخ، مشتری سے زیادہ تیز رفتار ہے۔ مشتری، زحل سے زیادہ تیز رفتار ہے۔ جبکہ زحل ہفت سیارگان میں سب سے سُست رفتار (بطیع السیر) سیارہ ہے۔

مندرجہ بالا ترتیب سیارگان کی فطری اوسط رفتار کے لحاظ سے ہے۔ تاہم شازونادر ایسا ہوتا ہے کہ یہ ترتیب کسی سیارہ کے حالتِ استقامت یا رجعت کی باعث بدل جاتی ہے۔ مثلاً عطارد کی عام معیاری رفتار، زہرہ سے زیادہ تیز ہے۔ لیکن عطارد اگر اپنے مقامِ استقامت (stationary) کے قریب ہو تو وہ زہرہ سے زیادہ سُست رفتار ہوسکتا ہے۔ اسی طرح کبھی کبھار حالتِ استقامت موجود مریخ کی رفتار مشتری سے بھی سُست ہوجاتی ہے۔ وقتی زائچہ میں احکام لگانے سے قبل یہ فلکی استثنا مدِ نظر رکھنا چاہیے۔ ورنہ دلیلِ سائل اور دلیلِ حاجت میں تعلق اخذ کرنے میں بھول چُوک ہوسکتی ہے۔

دو سیارگان میں اگر درجاتی تعلق ایک ہی برج میں بنے تو اسے قِران یا مقارنہ (conjunction) کہتے ہیں۔ اگر درجاتی تعلق مختلف بروج میں بنے تو اسے نظر یا مناظرہ (aspect) کہتے ہیں، بشرطیکہ یہ دونوں بروج باہم دوسرے، چھٹے، آٹھویں، اور بارھویں نہ ہوں۔ کیونکہ طالع یا کسی بھی سیارہ سے گننے پر دوسرا، چھٹا، آٹھواں اور بارھواں گھر ساقط النظر مقامات (place_of_aversion) ہیں۔

یہاں ایک نکتہ یاد رہے۔ وقتی زائچہ میں جو نظرات رائج ہیں وہ یونانی نجوم کے مطابق بنیادی روایتی نظرات (major_aspects) ہیں۔ ہندی نجوم کی نظرات (گرہ درشٹی)، اور جدید مغربی نجوم کی ثانونی نظرات (minor aspects) یعنی نیم تسدیس نیم تربیع، خمسہ وغیرہ کو وقتی زائچہ میں استعمال نہیں کیا جاتا۔ آسان زبان میں کہا جائے تو وقتی زائچہ میں قِران (conjunction) کے علاوہ صرف نظرِ مقابلہ (opposition)، نظرِ تثلیث (trine)، نظرِ تربیع (square)، اور نظرِ تسدیس (sextile) کو زیرِ غور لایا جاتا ہے۔ ان نظرات کی بنیاد سیارگان کے درمیان درجات (ڈگریوں کا فرق) ہے۔ وقتی زائچہ میں نظرات کو صرف برج سے برج تک (whole_sign) کی بنیاد پر اخذ نہیں کیا جاتا۔

اگرچہ ہندی نجوم کی شاخ جاتک (زائچہ پیدائش) میں مریخ (کی چوتھی، آٹھویں نظر)، مشتری (کی پانچویں نویں نظر)، اور زحل (کی تیسری دسویں نظر) خصوصی نظرات شمار ہوتی ہیں۔ لیکن وقتی زائچہ میں ایسا نہیں۔ چاہے آپ یونانی (tropical) حساب سے زائچہ بنائیں، یا ہندی (sidereal) حساب سے تاجک پرشن کنڈلی۔ وقتی زائچہ میں نظرات کا تعلق سیارگان کی اپنی نوعیت پر منحصر نہیں۔ وقتی زائچہ میں ہر سیارہ نطرِ تثلیث، نطرِ تربیع، نطرِ تسدیس بناسکتا ہے، چاہے وہ قمر ہو یا مشتری، زہرہ ہو یا مریخ، شمس ہو یا زحل۔

جَرَم النُور یعنی حدِ نظر

سیارگان کے درمیان قِران یا نظرات معلوم کرنے  کے لیے درجاتی حدود (longitudinal_limit) متعین کی گئی ہے۔ اسے عربی میں “جرم النور” کہتے ہیں۔ لاطینی اور انگریزی لفظ “اورب” (Orb) دراصل اسی جَرَم کا لفظی ترجمہ ہے۔ تاہم اردو کتب میں Orb کو حدِاتصال اور حدِ نظر کہا جاتا ہے۔ جبکہ سنسکرت کی تاجک کتب میں اسے دیپتانش (deeptamsa) کہا گیا ہے۔

یہاں جَرَم سے مراد سیارہ کی روشنی کے ہالے کا جسم ہے۔ فرض کریں، برج کی مثال ایک بڑے کمرے کی طرح ہے، اور سیارہ کی مثال اس کمرے میں موجود چراغ (دیے) کی طرح ہے۔ یہاں چراغ پورے کمرے کو یکساں طور پر منور نہیں کرسکتا ہے۔ چراغ کے نزدیک روشنی زیادہ ہوگی۔ جیسے جیسے دور جائیں گے، چراغ کی روشنی مدھم ہوتی جائے گی، اور تھوڑے زیادہ فاصلے پر روشنی غائب ہوجائے گی، اور دیکھنا ممکن نہ رہے گا۔ یعنی قِران اور نظر کا انحصار سیارہ کی روشنی کی حد پر ہے۔

زمین مرکزی نظام میں مختلف سیارگان مختلف جسامت اور روشنی رکھتے ہیں۔ اس بنیاد پر قدیم ماہرین نجوم نے مختلف سیارگان کے لیے مختلف حدِ نظر (Orb) طے کی ہیں۔ قران اور تمام اہم نظرات کے لیے شمس کا جرم النور یعنی حدِ نظر (orb) 15 ڈگری متعین ہے۔ قمر کا جرم النور (orb) 12 ڈگری ہے۔ مشتری کا 9 ڈگری، زحل کا 9 ڈگری، مریخ کا 8 ڈگری، زہرہ کا 7 ڈگری، اور عطارد کا جرم النور (orb) 7 ڈگری ہے۔ دورِ وسطی کے بعض یوروپی ماہرین کی کتب میں سیارگان کے اورب میں خفیف فرق ہے۔ اس مضمون میں پیش کردہ جرم النور کی فہرست، فارس-عرب نجوم پر مبنی ہے۔

سیارگان کی یہ فہرست جَرَم النور یعنی حدِ نظر (orbs) تقریباً ہر قدیم عربی کتاب میں موجود ہے۔ یہی تاجک پرشن کا معیاری قاعدہ ہے۔ یوروپ میں اس کا چلن انیسویں صدی تک رائج رہا۔ بدقسمتی سے بیسویں صدی میں حدِنظر (اورب) کا قدیمی طریقہ موقوف ہوتا ہوگیا۔ تاہم وقتی زائچہ کے عامل نجومی، اب بھی اسی قاعدے پر انحصار کرتے ہیں۔ وقتی زائچہ پڑھنے والوں کو ہر سیارے کی حدِ نظر زبانی یاد ہونی چاہئیں۔ کیونکہ کمپیوٹر سوفٹ اور موبائیل ایپس میں دی گئی نظرات کے ٹیبل اس روایتی مستند اصول پر منحصر نہیں ہوتے۔ بلکہ ماڈرن ویسٹرن آسٹرولوجی میں رائج نئی تقسیم پر قائم ہوتے ہیں۔ روایتی یونانی نجوم اور تاجک شاستر میں حدِ نظر (orbs) کا انحصار سیارگان پر ہے۔ نظرات کی اپنی نوعیت (مقابلہ، تثلیث، تربیع وغیرہ) پر نہیں۔ وقتی زائچہ میں مختلف نظرات سے منسلک لگی بندھی نظراتی حدِ نظر (orb_of_aspect) اختیار کرنا درست نہیں۔ یہ ماڈرن ویسٹرن آسٹرولوجی کی پیش کردہ کی نئی تقسیم ہے۔ اسے وقتی زائچہ میں استعمال نہیں کیا جاتا۔ وقتی زائچہ (چاہے یونانی حساب سے بنا ہو، یا ہندی تاجک پرشن کنڈلی ہو) دونوں مکاتبِ نجوم میں حدِ نظر (orb) سیارگان پر منحصر ہے۔ سیارگان کے علاوہ مرکزِ بیت (house_cusp) کی حدِ نظر 5 ڈگری ہے۔ یہی فاصلہ دیگر سماوی نقاط (points) اور “سہائم” کے لیے بھی شمار کیا جاتا ہے۔

قِران اور نظر معلوم کرنے کا مستند قاعدہ

جب دو سیارگان ایک دوسرے کی حدِ نظر کے اندر موجود ہوں تو ان کے مابین قِران یا نظر قائم ہونا ممکن ہے؛ ورنہ نہیں۔ اگر ایک سیارہ، دوسرے سیارہ کی حدِ نظر میں ہو، لیکن دوسرا سیارہ پہلے کی حدِ نظر میں نہ ہو تو قِران یا نظر کا تعلق ادھورا رہتا ہے۔ تاہم ایسا بہت کم صورتوں میں ہوتا ہے۔

پہلے بنیادی مثالوں سے عام قران اور نظر کو سمجھتے ہیں۔ یہ مستند اور روایتی قدیم طریقہ ہے۔ نجوم کے بہت سے طلبہ کے لیے شاید یہ بالکل نیا تجربہ ہو۔

قِران کی پہلی مثال:  فرض کریں کہ قمر برج حمل کی 13 ڈگری پر ہے، اور مشتری برج حمل کی 20 ڈگری پر ہے۔ پہلے دونوں سیارگان کی انفرادی حدِ نظر کو دیکھا جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ قمر کی حدِ نظر (جَرم النور orb) 12 ڈگری ہے (چاہے وہ کسی بھی قسم کی نظر یا قِران بنارہا ہو)۔ اس لیے اگر قمر برج حمل کی 13 ڈگری پر بیٹھا ہے، تو اس 13 ڈگری سے 12 ڈگری پیچھے اور 12 ڈگری آگے تک قمر کی روشنی جاسکتی ہے۔ لہٰذا اس مثال میں قمر کا حلقہِ اثر 1 ڈگری سے لے کر 25 ڈگری تک ہوگا۔

(1=13-12) → 13 ← (13+12=25)

اب دوسرے سیارہ مشتری کو دیکھتے ہیں، جو اسی برج حمل کی 20 ڈگری پر ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مشتری کی حدِ نظر (orb) 9 ڈگری ہے (چاہے وہ کسی بھی قسم کی نظر یا قِران بنارہا ہو)۔ یعنی مشتری اپنے قبضے کے مقام (درجہ) سے 9 ڈگری آگے اور 9 ڈگری پیچھے تک اثر رکھتا۔ اس لیے یہاں مشتری کا حلقہِ اثر 11 ڈگری سے 29 ڈگری تک ہے۔

(11=20-9) → 20 ← (20+9=29)

اس مثال میں مشتری، قمر کے جرم النور یعنی حدِ نظر (orb) کے اندر ہے۔ اسی طرح، قمر بھی مشتری کے جرم النور یعنی حدِ نظر (orb) کے اندر ہے۔ اس لیے قمر اور مشتری کے مابین قِران (conjunction) موجود ہے۔ قمر کے دیگر خمسہ متحیرہ سیارگان سے قِران کو مقارنہ بھی کہا جاتا ہے۔

قِران کی دوسری مثال: فرض کریں برج میزان میں زہرہ 11 ڈگری ہے۔ جبکہ اسی برج میزان میں عطارد 19 ڈگری پر ہے۔ کیا یہ دونوں حالتِ قِران میں ہیں؟ جی نہیں۔ کیونکہ عطارد اور زہرہ، دونوں کی متعین حدِ نظر 7 ڈگری ہے۔ یہاں دونوں ایک دوسرے کی حدِ نظر(orb) سے باہر ہیں۔ لہٰذا اس مثال میں عطارد اور زہرہ کا تعلق، قِران نہیں کہلائے گا (باجودیکہ دونوں ایک ہی برج میں کافی قریب بیٹھے ہیں)۔

قِران کی تیسری مثال: فرض کریں برج میزان میں مشتری 11 ڈگری ہے۔ جبکہ اسی برج میزان میں زحل 19 ڈگری پر ہے۔ کیا یہ دونوں حالتِ قِران میں ہیں؟ جی ہاں۔ کیونکہ مشتری اور زحل، دونوں کی متعین حدِ نظر 9 ڈگری ہے۔ یہاں دونوں ایک دوسرے کے حدِاتصال (orb) کے اندر ہیں۔ اس لیے مشتری اور زحل میں قِران ہورہا ہے۔

اوپر بیان کی گئی، قِران کی دوسری مثال اور تیسری مثال کا موازنہ کریں۔ دونوں مثالوں میں سیارگان کا باہمی فاصلہ 8 ڈگری ہے۔ دوسری مثال میں قِران ہے۔ لیکن تیسری مثال میں قِران نہیں ہے۔ اسکی وجہ سیارگان کا انفرادی جرم النور یعنی حدِ نظر (orb) ہے۔ ماڈرن ویسٹرن آسٹرولوجی سوفٹ ویئر کی جدولِ نظرات یا aspect_grid میں آپ کو شاید یہ طریقہ کار نہ ملے۔ اس لیے وقتی زائچہ میں قِران اور نظرات کی موجودگی کا اندازہ خود لگائیے۔

نظرِ تثلیث کی مثال:      فرض کریں قمر برج حمل کی 15 ڈگری پر بیٹھا ہے۔ جبکہ عطارد برج اسد کی 20 ڈگری پر موجود ہے۔ قمر کی متعین حدِ نظر (orb) یعنی 12 ڈگری کو اس کے مقام قبصہ (15 ڈگری) میں جمع/تفریق کرنے سے جواب 3 اور 27 آیا۔ یعنی اس مثال میں قمر کا حلقہ اثر 3 ڈگری سے لے کر 27 ڈگری تک ہے۔ یہ حلقہ اثر تمام ناظر بروج کے لیے ہوگا۔ اس لیے 20 ڈگری اسد پر قابض عطارد، قمر کے حدِ نظر کے اندر (within_orb) ہے۔ اب معلوم کریں کہ کیا قمر بھی عطارد کی حدِ نظر میں ہے۔ عطارد کا حلقہ اثر معلوم کرنے کے لیے اس کے معیاری حدِ نظر 7 ڈگری کو 20 ڈگری میں جمع/تفریق کیا۔ جواب 13 ڈگری سے 27 ڈگری تک آیا۔ یعنی قمر بھی عطارد کے حلقہ اثر میں ہے۔ لہذا قمر اور عطارد کے مابین نظر (aspect) قائم ہورہی ہے۔ چونکہ قمر حمل میں ہے، اور عطارد اسد میں ہے۔ اس لیے یہ نظر تثلیث (trine) کہلائے گی۔

اسی تثلیث کی مثال کو آگے بڑھاتے ہوئے فرض کریں کہ ایک اور سیارہ مریخ برج قوس کی 25 ڈگری پر قابض ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مریخ کی متعین حدِ نظر (orb) 8 ڈگری ہے۔ اس مثال میں 25 ڈگری میں 8 ڈگری جمع/تفریق کیے تو جواب 33 اور 17 آیا۔ یعنی مریخ کا حلقہ اثر 17 ڈگری سے لے کر اختتام برج تک ہے۔ چونکہ 30ویں ڈگری پر برج ختم ہوجاتا ہے۔ چونکہ یہاں قمر برج حمل کی 15 ڈگری پر بیٹھا ہے، اس لیے وہ مریخ کے حلقہ اثر سے باہر ہے۔ تاہم مریخ کی 25 ڈگری قوس پر موجودگی، قمر کے حلقہ اثر کے اندر ہے۔ اس لیے یہ یکطرفہ معاملہ ہوا۔ یعنی قمر تو اپنی نظر کی روشنی، مریخ کو دے رہا ہے۔ لیکن مریخ اپنی روشنی، قمر تک پہنچانے کے قابل نہیں۔ اس لیے یہ تثلیث مکمل نظر نہیں کہلائے گی۔

وقتی زائچہ میں نظرات کو بروج کی حد کے اندر لیا جاتا ہے۔ یعنی اگر نظرِ مقابلہ ہے تو سیارگان کے قابض بروج میں ایک-سات کا فاصلہ ہو۔ اگر نظرِ تثلیث ہے تو سیارگان کے قابض بروج میں پانچ-نو کا فاصلہ ہو۔ اگر تربیع ہے تو چار-دس کا فاصلہ ہو۔ اور اگر تسدیس ہے تو تین-گیارہ کا فاصلہ ہو۔ یہ پرانی چلی آرہی روایت ہے۔ قدیم ماہرینِ نجوم، ماورائے برج نظرات (out-of-sign_aspects) کو نہیں لیتے تھے۔ تاہم ماورائے برج قِران (out-of-sign_conjunction) کو تسلیم کیا جاتا تھا۔ یہی اصول تاجک شاستر میں بھی رائج ہے۔ مثال کے طور پر اگر دلیل سائل عطارد برج حمل کی 28 ڈگری پر ہو؛ اور دلیل حاجت زہرہ برج ثور کی 2 ڈگری ہو تو ماوارئے برج قِران ممکن ہے۔ تاہم اس کا نتیجہ عام معیاری قِران (within-sign_conjunction) کی طرح نہیں ہوتا۔ بلکہ نئے حالات یا سائل کے مقصد میں تبدیلی کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ اسی طرح احتراق (combustion) کے لیے بھی شمس اور محترق سیارہ کا ایک برج میں ہونا ضروری نہیں۔  اگر شمس اور کوئی سیارہ درجاتی طور پر بہت قریب ہوں تو الگ الگ بروج میں ہونے کے باوجود سیارہ محترق (combusted) کہلائے گا۔

پرانے زمانے میں قِران کو نظر کی فہرست میں شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ بلکہ اسے ایک خصوصی اہمیت دی جاتی تھی۔ قِران کا اثر، نظر کے اثر سے زیادہ ہوتا ہے۔ تمثیلی طور پر سمجھیں تو “قِران”، دو سیارگان کے “جسمانی ملاپ” کی طرح ہے۔ جبکہ “نظر” دور بیٹھ کر “نینوں سے نین ملانا” ہے۔ مثلاً ازراہِ تفنن اگر ہیرو اور ہیروئن ایک کمرے میں ہوں تو یہ تعلق قِران (conjunction) کہلائے گا۔ لیکن ہیرو کے سامنے والی کھڑکی میں اگر کوئی چاند سا چہرہ رہتا ہو تو یہ تعلق نظر (aspect) کہلائے گا۔

اتصال اور انصراف

اِتصال اور اِنصراف کا سوال اس وقت پیدا ہوگا جب دو سیارگان میں قِران یا نظر موجود ہو۔ اگر قِران یا نظر ہی موجود نہ ہو تو اتصال یا انصراف کا سوال خارج از بحث ہوجاتا ہے۔ اسی لیے مضمون میں پہلے قِران اور نظرات جاننے کے اصول اور مثالیں بیان کی گئی ہے۔ اور اس کے بعد اب اتصال اور انصراف کی تفصیل بیان کی جارہی ہے۔

اِتصال (application) کا آسان مطلب ہے کہ دو سیارے نظری یا جسمانی طور پر ملنے جارہے ہیں اور قربت بڑھارہے ہیں (بشرطیکہ وہ ایک دوسرے کی حدِ نظر کے اندر ہوں)۔ اور اِنصراف (separation) کا آسان مطلب ہے کہ دو سیارے نظری یا جسمانی طور پر بچھڑنے رہے ہیں، اور فاصلہ بڑھارہے ہیں (بشرطیکہ وہ ایک دوسرے کی حدِ نظر کے اندر ہوں)۔

یعنی دو سیارے درجاتی طور پر باہم قریب آرہے ہوں تو یہ اتصال ہے۔ اس کے برخلاف اگر دو سیارے درجاتی طور پر باہم دور ہورہے ہوں تو یہ انصراف ہے۔ اگر دو سیارے ایک ہی درجہ پر موجود ہوں تو یہ قِران کامل یا نظر کامل ہے۔

اگر آپ تقویم سیارگان یا سوفٹ ویئر میں لائیو چارٹ کی مدد سے سیارگان کی حرکات دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ قران یا نظر کے پہلے مرحلے میں اتصال (application) ہوتا ہے، پھر تکمیل (perfection)، اور آخری مرحلہ میں انصراف (separation)۔ یہ ایک فطری ترتیب ہے۔

ہر قران (conjunction) تین قسم کا ہوسکتا ہے۔

قِرانِ اتصالی (applying_conjunction)

قِرانِ کامل (perfect_conjunction)

قِرانِ انصرافی (separating_conjunction)

اسی طرح ہر نظر تین قسم کی ہوسکتی ہے۔ چاہے وہ مقابلہ ہو یا تربیع، تثلیث ہو یا تسدیس۔

نظرِ اتصالی (applying_aspect)

نظرِ کامل (perfect_aspect)

نظرِ انصرافی (separating_aspect)

ویسٹرن آسٹرولوجی کے ہر اچھے سوفٹ ویئر اور موبائل ایپ خاص کر نظرات کی جدول یا grid میں اتصالی نظر اور انصرافی نظر کی نشاندہی موجود ہوتی ہے۔ اتصالی (applying) نظر کو انگریزی حرف اے A سے ظاہر کیا جاتا ہے، اور بعض مقامات پر علامت<  کے ذریعے۔ انصرافی (separating) نظر کو انگریزی حرف ایس S سے ظاہر کیا جاتا ہے، اور بعض مقامات پر علامت> کے ذریعے۔ اس کے علاوہ دو ناظر سیارگان کے درمیان درجاتی فاصلہ بھی دیا ہوتا ہے۔ جس سے یہ علم ہوتا ہے کہ کتنے درجہ بعد قِران کامل یا نظرِ کامل قائم ہوگی۔ یا کتنے درجہ پہلے قِران کامل ہوچکا، یا نظرِ کامل گزر چکی۔ یہ درجاتی فاصلہ تعینِ مدت کی تخمین اور پیش گوئی کا وقت متعین کرنے میں کام آتا ہے۔

مثال کے طور پر ♃□☽ 1S45 سے مراد ہے کہ قمر اور اور مشتری کے درمیان نظر تربیع □ ہے۔ جس کی نوعیت انصرافی (S) ہے۔ یہاں 1S45 کا مطلب ہے کہ 1 ڈگری 45 منٹ پہلے کامل نظر تربیع ہوچکی ہے۔ اب قمر اور مشتری، نظر تربیع کے تعلق سے آہستہ آہستہ دور ہورہے ہیں۔

فرض کریں اسپیکٹ گرڈ میں ☉△☽ 2A15 درج ہو۔ تو یہاں اس کا مطلب ہے کہ قمر اور شمس کے درمیان نظرِ تثلیث △ دراصل اتصالی (A) ہے۔ اتصال کامل میں 2 ڈگری اور 15 منٹ کا درجاتی فاصلہ باقی ہے۔ یعنی قمر اور شمس، نظر تثلیث کے تعلق کے ساتھ باہم قریب آرہے ہیں۔

اتصال اور انصراف کی عملی مثال

اتصال اس وقت قائم ہوتا ہے جب سریع السیر یعنی تیز رفتار (swift) سیارہ کی ڈگری کم ہو، اور بطیع السیر یعنی سُست (slow) سیارہ کی ڈگری زیادہ ہو۔ آسان زبان میں اگر تیز پیچھے ہو، اور سُست آگے ہو تو تیز رفتار، سست رفتار کو پکڑ لے گا۔

اتصال اور انصراف کی مثالوں کو سمجھنے کے لیے سیارگان کی ترتیب بلحاظِ رفتار ذہن نشین ہونی چاہیے۔

فرض کریں قمر برج ثور کی 10 ڈگری پر ہو، اور زہرہ برج حوت کی 12 ڈگری پر ہو۔ یہاں قمر زیادہ تیز رفتار ہے اور زہرہ قدرے کم تیز رفتار ہے۔ چونکہ قمر کی ڈگری، زہرہ کی ڈگری سے کم ہے۔ لہٰذا قمر اور زہرہ کے درمیان اتصال بذریعہ نظرِ تسدیس (applying_sextile) ہے۔

ایک اور مثال ملاحظہ کیجیے۔ فرض کریں مشتری برج ثور کی 19 ڈگری پر ہے، اور زحل برج ثور کی 21 ڈگری ہے۔ یہاں مشتری اور زحل کے درمیان اتصال بذریعہ قِران ہورہا ہے۔ کیونکہ مشتری عموماً زحل سے زیادہ تیزی سے حرکت کرتا ہے۔

انصراف اس وقت قائم ہوتا ہے جب بطیع السیر یعنی سُست رفتار (slow) سیارہ کی ڈگری کم ہو، اور سریع السیر یعنی تیز رفتار (swift) سیارہ کی ڈگری زیادہ ہو۔ آسان زبان میں اگر تیز آگے نکل جائے اور دھیما پیچھے رہ جائے تو دونوں کا ملاپ نہیں ہوگا۔

مثلاً عطارد برج جدی کی 19 ڈگری پر ہو، اور مریخ برج میزان کی 14 ڈگری پر ہو۔ اگرچہ یہاں دونوں کے مابین نظر تربیع موجود ہے۔ لیکن تیزرفتار عطارد کی ڈگری، سُست رفتار مریخ سے زیادہ ہے۔ اس لیے دونوں کے مابین انصراف بذریعہ نظر تربیع (separating_square) جاری ہے۔ یعنی اس نظرِ تربیع میں عطارد نے مریخ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، اور خود آگے نکل گیا ہے۔ باالفاظِ دیگر عطارد، مریخ سے منصرف ہورہا ہے۔

ایک اور مثال لیتے ہیں۔ فرض کریں طالع دلو 7 ڈگری ہے، اور زہرہ 3 ڈگری دلو پر قابض ہے۔ یہاں طالع (Asc) اگرچہ سیارہ نہیں بلکہ خاص سماوی نقطہ (point) ہے۔ یاد رہے کہ طالع، عاشر، ہاؤس کسپ اور سہائم وغیرہ، تمام سیارگان سے زیادہ تیزرفتاری سے آگے بڑھتے ہیں۔ یعنی زیادہ سریع السیر (faster_or_swifter) ہوتے ہیں۔ اس مثال میں کہا جائے گا کہ زہرہ، طالع دلو سے منصرف ہے۔ کیونکہ نقطہِ طالع 7 ڈگری، زہرہ کی 3 ڈگری سے قِران کر کے آگے بڑھ چکا ہے۔ اگرچہ یہاں دلو طالع اور زہرہ میں قِران (conjunction) اپنی جگہ قائم ہے۔ لیکن یہ منصرف یعنی قران انصرافی (separating_conjunction) ہے۔ چونکہ وقتی زائچہ میں طالع، دلیل سائل ہے۔ اس لیے زہرہ، یہاں سائل کے آرام دہ پس منظر اور راحت بخش حالات کی جانب اشارہ ہے۔ یعنی ماضیِ قریب میں آرام اور راحت کا فائدہ مل چکا، جس کا نزولی اثر اب بھی جاری ہے۔

اتصال اور انصراف کا عام مفہوم

وقتی زائچہ میں اتصال (applying_aspect_or_conjunction) مستقبل میں پیش آنے والے نتیجے یا واقعے کی علامت ہے، چاہے اس کی نوعیت سعد ہو یا نحس۔ اگر متصل سیارہ سعد یا مسعود ہو تو اچھی صورتحال۔ اور اگر متصل سیارہ نحس یا منحوس ہو تو بری صورتحال۔

اس کے برعکس انصراف (separating_aspect_of_conjunction) ماضی میں پیش آچکے حالات اور واقعات کا اشارہ ہے، چاہے اس کی نوعیت اچھی ہو یا بری۔ اگر منصرف سیارہ سعد یا مسعود ہو تو اچھی صورتحال۔ اور اگر منصرف سیارہ نحس یا منحوس ہو تو بری صورتحال۔

مختصراً سمجھیے کہ اتصال کا مطلب ہے “آیندہ” (future)۔ اور انصراف کا مطلب ہے “گذشتہ” (past)۔ جبکہ قِران کامل یا نظرِ کامل، وقتِ موجود یعنی حال (present) کی دلیل ہے۔ ویسے ماضی، حال اور مستقبل کو جاننے کے دیگر قواعد بھی ہیں۔ اور ان تینوں عرصہِ وقت سے زائچہ کے مخصوص گھر بھی منسوب ہیں۔ لیکن اتصال اور انصراف کا قاعدہ سب سے معروف اور معتبر ہے۔

گذشتہ وقوعہ سے متعلق سوال کی مثال ملاحظہ ہو۔ ایک خاتون کلائنٹ نے پوچھا: کیا میرا سونے کا ہار (necklace) ملازمہ نے چُرایا ہے۔ جواب کے لیے دوسرے کے مالک (خانہ دولت یعنی سائل کے سونے کا ہار) اور چھٹے کے مالک (سائل کی ملازمہ) کے درمیان “انصراف” دیکھا جائے گا۔ کیونکہ سوال جو شک/اندیشہ ہے، وہ چوری کے اُس وقوعہ سے متعلق ہے، جو ماضیِ قریب میں ہوچکی ہے۔ اگر چھٹے اور دوسرے کے مالکان میں انصراف موجود ہو تو سونے کا ہار واقعی سائل کی ملازمہ نے چُرایا ہے، یعنی اس کے پاس ہے۔ اگر انصراف موجود نہیں تو سونے کا ہار، ملازمہ نے چوری نہیں کیا۔ یہاں ایک نکتہ واضح رہے ۔ اگر سوال میں چور نامعلوم، لاتعلق شخص اور مفرور ہو تو پھر وقتی زائچہ کے ساتویں گھر اور ساتویں کے مالک پر غور کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ بعض “منفی یا نحوست سے متعلق سوالات” ایسے ہوتے ہیں، جہاں انصراف اچھے نتیجہ کا اشارہ ہوسکتا ہے۔ جیسے موت، بیماری، خطرے، خوف، اندیشے وغیرہ کے سوال پر دلیل سائل، نحس گھروں کے مالک سے منصرف (separate) ہورہا ہو۔ یہاں انصراف اس بات کی علامت ہے کہ اندیشہ ٹل رہا ہے، خطرہ ختم ہورہا ہے۔

وقتی زائچہ میں درجہِ طالع، یا حاکمِ طالع، یا قمر کی انصرافی نظرات (خاص کر آخری نظر انصراف) سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائل کے ساتھ (کچھ وقت پہلے) کیا صورتحال پیش آئی تھی۔ سائل کا پس منظر کیا ہے۔ یا وہ کس سے مل کر آیا ہے، یا کیا کھا کر آیا ہے، یا وہ واقعی بیمار ہے یا نہیں۔ جبکہ اتصالی نظرات (خاص کر فوری پہلے اتصال) سے یہ علم ہوتا ہے کہ سائل کو آنے والے وقت میں کن حالات کا سامنا ہوگا۔

مثلاً سوال ہو کہ کیا مجھے مطلوبہ ملازمت مل جائے گی۔ غور کریں یہ سوال مستقبل (آیندہ) سے متعلق ہے۔ اگر پہلے کے مالک (دلیلِ سائل) اور دسویں کے مالک (دلیلِ حاجت) کے درمیان اتصال ہو تو مستقبل قریب میں سائل کو ملازمت مل جائے گی۔ اگر سوال ہو کہ فلاں جائیداد پلاٹ حاصل کرلوں گا۔ اگر پہلے کے مالک (دلیلِ سائل) اور چوتھے کے مالک (دلیلِ حاجت) کے درمیان اتصال ہو تو جائیداد پلاٹ سائل کے ہاتھ آجائے گا۔ اگر سائل نے پوچھا کہ اسکی بیٹی کا رشتہ آیا ہے، کیا اس جگہ رشتہ پکا ہوجائے گا۔ اگر وقتی زائچہ کے طالع سے پانچویں کے مالک اور گیارھویں کے مالک کے درمیان اتصال ہو تو رشتہ پکا ہوجائے گا اور شادی ہوجائے گی۔

مختصراً یہ کہ اگر سوال، ماضیِ قریب (گزرے وقت) سے متعلق ہو تو انصراف (separation) اہم ہے۔ اگر سوال، مستقبل قریب (آیندہ وقت) سے متعلق ہو تو اتصال (application) اہم ہے۔

دلیلِ سائل اور دلیلِ حاجت میں اتصال اور مثبت جواب

وقتی زائچہ میں دلیلِ سائل (Querent) سیارہ اور دلیلِ حاجت (Quesited) سیارہ کے مابین اتصال (application) مثبت جواب (ہاں) کی علامت ہے۔ یعنی جو کچھ سائل چاہتا ہے، اس میں کامیابی ہوگی۔ وجہ یہ کہ بیشتر سوالات آنے والے وقت اور مستقبل سے متعلق ہوتے ہیں۔ اس لیے سائل اور حاجت سے منسلک سیارگان میں براہِ راست اتصال کا مطلب ہے مثبت جواب اور کامیابی۔ یہ بنیادی کلیہ ہے، بشرطیکہ سائل اور حاجت سے متعلق سیارگان میں کوئی تبدیلی یا خلل پیدا نہ ہو، یا اتصال سے قبل کوئی اور (تیسرا) سیارہ بیچ میں رکاوٹ نہ ڈالے۔

اتصال کی موجودگی میں بھی منفی جواب اور ناکامی ممکن ہے

یہ خصوصی اور ضمنی کلیہ ہے۔ بظاہر سائل (Querent) اور حاجت (Quesited) سے منسلک سیاروں میں اتصال موجود ہوتا ہے۔ لیکن کسی تیسرے غیر متعلقہ سیارے کی درمیان میں موجودگی کی وجہ سے سائل اور حاجت میں اتصال معطل یا مؤخر جاتا ہے۔ یا پھر سائل اور حاجت سے منسلک سیاروں میں سے کوئی سیارہ، اتصال کامل سے پہلے خود ہی راجع (retrograde)، یا محترق ہوجاتا ہے (جو زیادہ نحس امر ہے)۔ یا اگلے برج کی ابتدائی ڈگری پر موجود کوئی تیسرا سیارہ راجع ہو کر پہلے اتصال کرجاتا ہے۔ اسے یوں سمجھیئے جیسے “دو ملاؤں میں مرغی حرام”۔

قدیم ماہرینِ نجوم نے تیسرے سیارے کی ایسی دخل اندازی اور سائل/حاجت کی اپنی ضعف/نحوست کو چند خصوصی وضع فلکی (planetary_configurations) کی شکل میں بیان کیا ہے، وہ یہ ہیں۔

انتکاث – Revoking_or_Refranation (جب سریع سیارہ، اتصالِ کامل سے قبل خود راجع ہوجائے)

رد النور – Return_of_Light (جب بطیع سیارہ، خود راجع یا محترق ہو)

منع النور – Prohibition (جب دو سیاروں کے اتصالِ کامل سے قبل، تیسرا دخل انداز ہو کر اتصال کرجائے)

قطع النور – Cutting_of_Light (جب دوسیاروں کے اتصالِ کامل سے قبل، تیسرا اچانک راجع ہوکر اتصال کرجائے)

فوت – Evasion_or_Frustration (جب بطیع سیارہ اتصال کامل سے قبل اگلے برج میں چلا جائے، یا خود کسی اور سے متصل ہوجائے)

واضح رہے کہ تاجک شاستر میں موجود یوگوں کی تعریف (definitions) حقیقی فارس عرب نجوم میں بیان کی گئی اصل تعریفوں سے مختلف ہے۔ اس لیے اس مضون میں الکندی، ابومعشر، القبیضی اور البیرونی کی بیان کردہ تعریف پر انحصار کیا گیا ہے۔

وقتی زائچہ میں مذکورہ بالا وضع فلکی کے امکانات جاننے کے لیے تقویم سیارگان (ephemeris) کی ہمراہ دی گئی جدول نظرات ہونا ضروری ہے۔ اس کا متبادل سوفٹ ویئر میں دیا گیا آپشن ڈائنامِک آسٹرولوجیکل کلاک (dynamic_astrological_clock) ہے۔ جہاں آپ کسی بھی وقتی زائچہ کے ٹائم کو آگے بڑھا کر (forward) یا پیچھے (backward) کر کے نظرات کی تکمیل یا تنسیخ معلوم کر سکتے ہیں۔

دلیل سائل اور دلیل حاجت میں انصراف اور منفی جواب

وقتی زائچہ میں دلیلِ سائل (Querent) سیارہ اور دلیلِ حاجت (Quesited) سیارہ کے مابین انصراف (separation) منفی جواب (ناں) کی علامت ہے۔ یعنی جو کچھ سائل چاہتا ہے، اس کی کامیابی کا امکان نہیں۔ وقت گزر چکا۔ موقع ہاتھ سے نکل چکا۔ لہٰذا امید رکھنا بیکار ہے۔ انصراف کو اگر مستقبل (آنیوالے وقت) کے حوالے سے دیکھا جائے گا تو جواب نفی میں ہوگا۔ یہ بنیادی کلیہ ہے، بشرطیکہ سائل اور حاجت سے منسلک سیارگان کو کسی تیسرے سیارہ کی جانب سے کوئی امداد نہ مل رہی ہو۔

انصراف کو عام طور پر ماضیِ قریب (کچھ وقت پہلے) کی صورتحال جاننے کے لیے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر سوال بذاتِ خود گذشتہ حالات، یا پیش آچکے وقوعہ سے متعلق ہو تو دلیلِ سائل سیارہ اور دلیلِ حاجت سیارہ کے مابین انصراف (separation) پر غور کرنا چاہیے۔ لیکن بہت کم سوالات ماضی سے متعلق ہوتے ہیں۔ آسٹرولوجر سے زیادہ تر سوالات مستقبل کے بارے میں پوچھے جاتے ہیں۔

انصراف کی موجودگی میں بھی مثبت جواب اور کامیابی ممکن ہے

یہ بھی خصوصی اور ضمنی کلیہ ہے۔ بظاہر سائل (Querent) اور حاجت (Quesited) سے منسلک سیاروں میں انصراف ہوتا ہے۔ یا دونوں میں باہم کوئی نظر ہی موجود نہیں ہوتی۔ لیکن کسی تیسرے سیارے کی موجودگی اور اس پر مشترکہ نظر کی وجہ سے سائل اور حاجت میں تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔ یا پھر کوئی زیادہ تیز رفتار سیارہ، دلیلِ سائل کا نور، دلیلِ حاجت تک پہنچادیتا ہے۔ اس کا نتیجہ کسی بیرونی سہارے یا کسی تیسرے شخص کی وجہ سے کامیابی ہے۔ قدیم ماہرینِ نجوم نے ایسی سماوی امداد اور کوکبی تعاون کو خصوصی وضع فلکی (planetary_configurations) کی شکل میں بیان کیا ہے، وہ یہ ہیں۔

نقل النور – Transfer_or_Translation_of_Light

جمع النور –  Collection_of_Light

تیسرا مرحلہ: قبضہ اور قبول

قبضہ

وقتی زائچہ میں دلیل سائل (Querent) اور دلیل حاجت (Quesited) کے قابض مقامات نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اگر دلیل سائل خود خانہ حاجت میں قابض ہو تو سائل کا سوال صادق ہوتا ہے، نیت صاف اور مقصد واضح ہوتا ہے۔ کیونکہ سائل، اپنے سوال سے متعلق معاملہ میں شدید دلچسپی رکھتا ہے۔ اس کے حصول کے لیے عملاً کوشاں بھی ہوتا ہے۔ اگر دلیلِ سائل سیارہ، خانہِ حاجت میں کسی طرح کی قوت رکھتا ہو، یا مسعود الحال ہو تو گھر کے مالک سے اتصال کے بغیر بھی کامیابی ممکن ہے۔ کیسے؟ دراصل ایسی صورت میں خانہ حاجت کا درجہ (cusp_of_quesited_house) ایک طرح سے دلیل حاجت کا متبادل بن جاتا ہے۔ اور دلیل سائل سیارہ کا خانہ حاجت کے درجہ سے اتصال ہی کامیابی لاتا ہے۔ مثلاً سوال حصولِ روزگار یا پیشہ ورانہ ترقی کا ہو اور طالع جدی ہو۔ دلیل سائل (پہلے کا مالک) زحل، خانہ حاجت یعنی دسویں گھر میزان کے درجہ سے متصل (applied_to_10th_cusp) ہو تو یہ کامیابی کی علامت ہے۔ چاہیے دسویں گھر میزان میں قابض زحل، دسویں کے مالک زہرہ سے کسی طرح کا اتصال نہ کررہا ہو۔ تاہم یہاں سائل کی اپنی کوشش، حیثیت اور صلاحیت کی وجہ سے کامیابی ملے گی۔ کیونکہ اس صورتحال میں اتصال سیارگان یا قبول (reception) کا عنصر موجود نہیں۔

تاہم اگر دلیل سائل، خانہ حاجت میں کمزور اور منحوس ہو تو دلچسپی اور کوشش کے باوجود واضح کامیابی نہیں ملتی۔ مثلاً شادی کا سوال ہو اور طالع میزان ہو۔ جبکہ دلیلِ سائل زہرہ ساتویں گھر حمل میں قابض ہو۔ جو “غریب” (peregrine) ہو اور دیگر سیاروں سے ساقط النظر بھی ہو۔ ایسی صورت میں سائل کی اپنے مطلوب سے شادی نہیں ہوگی۔

قبضہ کی ایک اور صورت یہ ہے کہ دلیلِ حاجت (Quesited) خود خانہ سائل (پہلے گھر) میں قابض ہو۔ اور ساتھ قوی اور مسعودالحال بھی ہو۔ اگر دلیلِ حاجت، خانہ سائل کے درجہ (cusp_of_querent_house) سے متصل ہورہا ہو تو بغیر دلچپسی اور بغیر محنت کے بھی کامیابی ممکن ہے۔ مثلاً حصولِ دولت کا سوال ہو اور طالع ثور ہو۔ یہاں صاحبِ خانہ حاجت (یعنی دوسرے گھر کا مالک) عطارد ہے۔ فرض کریں عطارد بذاتِ خود طالع ثور کی ڈگری کے قریب بیٹھا ہو۔ تو یہ سائل کو دھن دولت عطا کرنے کی وجہ بن جائے گا۔ باوجودیکہ اس میں سائل کی اپنی دلچسپی یا زیادہ کوشش شاملِ حال نہ ہوگی۔ کسی طرح مفت کا مال ہاتھ آجائے گا۔ کیونکہ اس مثال میں پہلے کے مالک زہرہ اور دوسرے کے مالک عطارد میں کوئی اتصال نہیں ہورہا۔ بلکہ خانہ مال کا مالک خود سائل کے گھر آگیا ہے۔

دلیل سائل اور حاجت سے منسلک سیارگان سائل اور سوال کے بارے میں اضافی آگہی بھی دیتے ہیں۔ اگرچہ ایسا ہر وقتی زائچہ میں نہیں ہوتا لیکن یہ عین ممکن ہے۔ جیسے صاحبِ خانہ سائل (پہلے کا مالک) تیسرے گھر میں ہو تو سائل کا تعلق کمیونیکیشن، ہمسائیگی، تقریر یا تحریر سے ہوسکتا ہے۔ اگر صاحبِ خانہ سائل، ساتویں گھر میں ہو تو سائل خود نجومی یا مسافر یا غائب ہوسکتا ہے۔ اگر نویں گھر میں ہو تو بین الاقوامی ابلاغ، سوشل میڈیا، یا اعلیٰ تعلیم یا مذہبی امور سے ہوسکتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

وقتی زائچہ میں قمر کی گھر میں پوزیشن سے سوال کی نوعیت یعنی سائل کے دل کا حال بھی معلوم کیا جاتا ہے۔ قمر جس گھر میں ہو، سائل کا مافی الضمیر اسی گھر سے متعلق کسی منسوبات سے ہوتا ہے۔

دلیل سائل اور دلیل حاجت کا قبضہ ان کی قوت اور ضعف کا بھی پیمانہ ہے۔ فارس عرب نجوم میں بیان کی گئی وضع فلکی “اقبال” (advancement) اور “اِدبار” (retreat/retiring) اسی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ وضع فلکی اقبال کا مطلب ہے سیارہ کا اچھے گھروں (اوتاد یا مائل اوتاد یا ناظر گھروں) میں قابض ہونا۔ جبکہ اِدبار کا مطلب ہے سیارہ کا برے یا کمزور گھروں (زائل اوتاد یا ساقط النظر گھروں) میں قابض ہونا۔ تاہم اگر سوال چھٹے، آٹھویں یا بارھویں سے ہی متعلق ہو (مثلاً ملازمین یا جانوروں کا حصول، جہیز کی نوعیت، نیند کی حالت، صدقہ خیرات وغیرہ) تو انھیں خراب یا نحس گھر نہیں تصور کیا جاتا۔

قبول

ماشاءاللہ الاثری الیہودی اور ابواسحاق الکندی نے اس امر پر زیادہ زور دیا ہے۔ اگر دلیل سائل اور دلیل حاجت میں اتصال کے ہمراہ قبول کی موجود ہو تو کامیابی کی یقینی امید ہوتی ہے۔ سائل کی دلچسپی، کوشش اور محنت رنگ لاتی ہے۔ اس کی بات مان لی جاتی ہے۔ اس کو تعاون حاصل ہو جاتا ہے۔ قبول ایک سادہ لیکن بہت اہم اصول ہے۔ جس میں نظر کے ساتھ ملکیت کا ربط بھی شامل ہوجاتا ہے۔ اس کی کئی اقسام ہیں۔

تعریف: جب کسی گھر میں قابض سیارہ اور اس گھر کے مالک سیارہ (حاکم برج، حاکم شرف وغیرہ) کے درمیان نظر یا قران موجود ہو تو یہ قبول (reception) کی صورت ہے۔ وقتی زائچہ میں اگر یہ نظر یا قران، اتصالی (applied) ہو تو بہت خوب ہے۔

ناظر (aspecting) اور منظور (aspected) سیاروں کے درمیان یہ مہمان اور میزبان کی طرح کا تعلق ہے۔ اصطلاحاً گھر کے مالک سیارہ کو “قابل” (receiver_or_receiving) کہا جاتا ہے، اور اس گھر میں قابض مہمان سیارہ کو “مقبول” (received)۔

فرض کریں ایک سائل نے پوچھا کہ کیا اس کا بھائی بیرون ملک سفر پر جاسکے گا؟ بوقت سوال طالع اسد ہے۔ تیسرے گھر میزان میں مشتری بیٹھا ہے۔ جبکہ تیسرے کا مالک سیارہ زہرہ گیارھویں گھر جوزا میں ہے۔ یہاں زہرہ اور مشتری کے درمیان اتصال بنظر تثلیث بھی ہے۔ لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ کہ تیسرے گھر کا مالک سیارہ زہرہ اپنے مہمان مشتری کو قبول کررہا ہے (جو میزان میں بیٹھا ہے)۔ قبولیت کی وجہ سے یہ اتصال بنظر تثلیث دوہری سعادت اور قوت کا باعث ہے۔ لہٰذا جواب یقینی طور پر مثبت میں ہوگا۔ نہ صرف سفر ہوگا، بلکہ بیرونِ ملک، راحت اور دولت کے حصول کی کوشش کامیاب ہوگی۔

ایک اور زائچہ میں فرض کریں کہ زحل برج حوت میں زہرہ سے متصل ہورہا ہے۔ یہاں زحل کے قابض برج حوت کا حاکمِ شرف (exaltation_ruler) زہرہ ہے۔ اس لیے زہرہ اپنے مقام شرف (حوت) میں آئے مہمان زحل کو قبول کررہی ہے۔ یہاں زہرہ کی حیثیت قابل (receiver) کی ہے، اور زحل کی حیثیت مقبول (received) کی ہے۔

بالفرض اگر قابض سیارہ میں کوئی ذاتی کمزوری یا نحوست بھی ہو تو “مقبول” ہونے کی وجہ سے اس میں کمی آجاتی ہے۔ اس کی قوت اور سعادت میں (مالک سیارہ کی فطرت و حیثیت کے مطابق) قدرے اضافہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً مریخ برج ثور میں ہو جو اس کا مقام وبال ہے۔ جبکہ قمر برج ثور میں ساتھ بیٹھ کر مریخ سے متصل ہو۔ یہاں قمر، برج ثور کا حاکم شرف (exaltation_ruler) ہے۔ یہ یکطرفہ سہی لیکن قبول (reception) ہے۔ قمر اپنے کمزور مہمان مریخ کو قبولیت بخش کر اسے باقوت اور سعد بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس لیے کمزور مریخ میں برج ثور اور قوی قمر کے مثبت اوصاف جمع ہو جائیں گے، جو عام طور پر دیکھنے میں نہیں آتے۔

اگر دلیل سائل (پہلے کے مالک یا قمر) کو کسی اچھے گھر کا مالک قبولیت بخشے تو یہ بہت نایاب اور سعید اشارہ ہے۔ گویا کہ “بِن مانگے ملے موتی”۔

فرض کریں ایک شخص روزگار سے متعلق سوال کرتا ہے۔ اس کے وقتی زائچہ میں دلیل سائل سیارہ (پہلے کا مالک)، دسویں گھر میں باقوت ہوکر بیٹھا ہے۔ جبکہ دسویں کا مالک (یعنی حاکم برج، حاکم شرف، حاکم مثلثہ وغیرہ) پہلے کے مالک سے خود اتصال کررہا ہو تو یہ صرف روزگار میں عام کامیابی کی دلیل نہیں، بلکہ اس سے کہیں زیادہ خوش قسمتی کی علامت ہے۔ ایسے سائل کی جھولی میں پیشہ ورانہ کامیابی پکے ہوئے پھل کی طرح خود آگرے گی۔ نیز سائل، اپنے افسران بالا، مشہور یا صاحبِ حیثیت افراد کا منظورِ نظر بنے گا۔اور ان کی کرم فرمائی پائے گا۔

اسی سوال کے پس منظر میں باالفرض اگر دلیل سائل (پہلے کا مالک) دسویں گھر میں بیٹھا ہو۔ لیکن پہلے کا مالک خود دسویں کے مالک کو قبول کررہا ہو۔ تو کامیابی یہاں بھی یقنیی طور پر ملے گی، لیکن سائل  کی اپنی دلچپسی، کوشش اور خود رجوع کرنے کے بعد۔

مذکورہ بالا مثال میں فرض کریں اگر دلیل سائل (پہلے کا مالک) دسویں گھر میں ہو۔ لیکن قبول کی کوئی صورت موجود نہ ہو۔ یعنی نہ تو پہلے کا مالک، دسویں کے مالک کو قبول کرے۔ اور نہ ہی دسویں کا مالک، پہلے کے مالک کو قبول کرے۔ ایسی صورت میں کامیابی کا امکان مبہم اور غیر یقینی رہے گا۔ سائل کو حصولِ روزگار کے سلسلے میں دوڑ دھوپ ضرور کرنی پڑے گی (تاآنکہ پہلے کا مالک، دسویں میں قوی اور مسعود الحال نہ ہو)۔ اگر دسویں گھر میں قابض پہلے کا مالک باالفرض ضعیف یا نحوست کا شکار ہو تو کوشش کے باجود ناکامی اور نامرادی ہوگی۔

تعریف: اگر دو سیارے باہم ایک دوسرے کے گھروں (ذاتی برج، شرفی برج وغیرہ) میں ہوں، اور دونوں ایک دوسروں کو ناظر ہوں تو اسے قبول تامّ (mutual_reception) کہتے ہیں، جس کا اثر بہت قوی ہوتا ہے۔ اسے بسااوقات اتحادِ حقیقی بھی کہا جاتا ہے۔  ہندی نجوم میں اس سے ملتی جلتی صورتحال کو “پری ورتن” کا نام دیا جاتا ہے۔ تاہم اہلِ ہند، پری ورتن کے لیے نظر کا کردار بھول جاتے ہیں، جو درست نہیں۔ قبول کی اہم شرط سیارہ کی اپنے مالک سیارہ سے نظر یا قِران ہے۔ یہ ایک اہم تعلق ہے جہاں دو سیارے قوی انداز میں باہم منسلک ہوجاتے ہیں۔

قبول تامّ کی مثال ملاحظہ کیجیے۔ شمس برج قوس میں ہو اور مشتری برج اسد میں ہو۔ اور دونوں کے درمیان درجاتی نظرِ تثلیث بھی ہو۔ تو یہ قبول تامّ یا اتحادِ حقیقی کی صورتحال بن جائے گی۔ یہاں مشتری، اپنے برج قوس میں بیٹھے مہمان شمس کو قبولیت بخش رہا ہے۔ اور شمس اپنے برج اسد میں بیٹھے مہمان مشتری کو عزت اور وقار عطا کررہا ہے۔ یہ دو طرفہ تبادلہِ “قبول”، دوستانہ بھی ہے اور ہم پلہ بھی ہے۔ کیونکہ یہاں دونوں سیارے (شمس اور مشتری) باہم دوست ہیں، مذکر ہیں اور نَہاری (diurnal) ہیں۔

اگر دلیل سائل اور دلیل حاجت کے درمیان قبولِ کامل (یعنی دو طرفہ قبولیت) موجود ہو، اور دونوں اچھے گھروں میں قابض ہوں تو قسمت اور صلاحیت، دلچپسی اور فائدے، کوشش اور کامیابی کا خوبصورت امتزاج سامنے آتا ہے۔

چوتھا مرحلہ: سعادت ونحوست اور قوت وضعف

وقتی زائچہ میں مثبت یا منفی جواب کا تعلق صرف اتصال اور انصراف سے نہیں۔ بلکہ اس میں سیارگان کی قوت و ضعف اور سعادت و نحوست کا بھی کردار ہے۔ اس لیے صرف اتصال اور  انصراف پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔

اسے عملی زندگی کے پیرائے میں دیکھیں۔ فرض کریں سائل نے پیشہ کی کامیابی سے متعلق سوال پوچھا۔ نجومی نے صرف اتصال (application) دیکھ کر جواب دیا نوکری مل جائے گی۔ یعنی نجومی نے متعلقہ سیارگان کی نحوست اور ضعف کو پرکھنے کی زحمت نہیں کی۔ نجومی کی پیش گوئی کے مطابق سائل کو واقعی نوکری مل گئی۔ لیکن مسئلہ یہ کہ سائل کو نوکری انتہائی گئی گزری جگہ پر ملی، جو اسکی رہائش سے کافی دور جگہ تھی۔ تنخواہ انتہائی کم تھی، محنت مشقت حد درجہ تھی، اور سیٹھ کی لعن طعن الگ سننے کو ملتی تھی۔

دوسری مثال ملاحظہ کیجیے۔ فرض کریں ایک نوجوان کھلاڑی نے کھیل میں ہار جیت کا سوال پوچھا۔ نجومی نے صرف انصراف (separation) یا عدم تعلق (aversion) کی بنیاد پر ناں میں جواب دیا۔ متعلقہ سیارگان کی سعادت اور قوت کو پرکھنے کی زحمت نہیں کی۔ خیر سائل نے کھیل کے مقابلے میں حصہ لیا۔ لیکن نجومی کی پیش گوئی کے مطابق وہ واقعی ہار گیا۔ تاہم اس کھیل میں سائل نے جی جان سے حصہ لیا۔ شاندار پرفارمنس دکھائی۔ جس کے باعث ماہرین اور شائقین کی داد حاصل کی۔ ہارنے کے باوجود اسے اخبارات اور میڈیا میں پذیرائی ملی۔

یہ ہے وہ فرق جو اتصال اور انصراف کی اہمیت کے باجود نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے وقتی زائچہ میں ہمیشہ دلیل سائل اور دلیل حاجت کی سعادت و نحوست، اور قوت و ضعف کو دیکھا جائے۔ دونوں دلائل (سائل اور حاجت سے منسلک سیارگان) میں موازنہ کریں کہ کون زیادہ سعادت اور قوت رکھتا ہے۔ اور کون زیادہ نحوست اور ضعف کا شکار ہے۔ اگر دونوں دلائل نحوست زدہ اور کمزور ہوں تو پھر اتصال بھی رزیل اور کمزور کامیابی لائے گا۔ اگر دونوں دلائل سعید اور قوی ہوں، تو انصراف کے باوجود متبادل فائدے اور بہتری کی امید ہوگی۔ اگر ہار اور انکار سے سامنا بھی ہوا تو باعزت اور باوقار طریقے سے ہوگا۔

سعادت و نحوست، قوت و ضعف کا مترادف نہیں۔ اگرچہ بعض سعادت کے عوامل قوت کا باعث ہوتے ہیں۔ اور بعض نحوست کے عوامل سیارہ کی ضعف کا وجہ بنتے ہیں۔ اس کے باجود ان میں فرق موجود ہے۔

یونانی اور فارس عرب نجوم میں سعادت و نحوست کی دوبنیادی اشکال ہیں۔ ایک فطری (essential_or_natural)، اور دوسری حادثاتی یا اکتسابی (accidental_or_acquired)۔

ہفت سیارگان میں سے دو سیارے فطری سعد ہیں۔ سعد اکبر مشتری (greater_benefic_Jupiter)، اور سعد اصغر زہرہ (lesser_benefic_Venus)۔ فطری سعد سیاروں کو Fortune بھی کہا جاتا ہے۔

ہفت سیارگان میں دو سیارے فطری نحس ہیں: نحس اکبر زحل (greater_malefic_Saturn)، نحس اصغر مریخ (lesser_malefic_Mars)۔ فطری نحس سیاروں کو Infortune بھی کہا جاتا ہے۔

ہفت سیارگان میں دو سیارے شمس و قمر کو مشترکہ طور پر نیرین (luminaries) کہا جاتا ہے۔

جبکہ عطارد فطرتاً ممتزج اور مشترک ہے۔ عطارد فطری سعد سیارہ کے مقرن یا متصل ہو تو سعد بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی فطری نحس سیارہ سے مقرن یا متصل ہو تو نحس بن جاتا ہے۔

کوئی بھی سیارہ اکتسابی یا حادثاتی طور پر سعادت حاصل کرسکتا ہے۔ ایسے سیارہ کو مسعودالحال یا مسعود (Fortunate) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی بھی سیارہ اکتسابی یا حادثاتی طور پر نحوست کا شکار ہوسکتا ہے۔ ایسے سیارہ کو منحوس الحال یا منحوس (Infortunate) کہا جاتا ہے۔ یہاں سعد اور مسعود، اور نحس اور منحوس کے درمیان فرق واضح رہے۔

ابومعشر نے اپنی کتاب المدخل الکبیر میں سعادت و نحوست اور قوت و ضعت کی درجنوں صورتیں بیان کی ہیں۔ یہاں بیان کی گئی سعادت و نحوست فطری نہیں بلکہ اکتسابی، واقعاتی یا حادثاتی (accidental) ہیں۔

سعادتِ سیارگان

جب سیارہ، فطری سعد سیاروں سے تثلیث یا تسدیس رکھتا ہو یا ان سے مقرن ہو۔

جب سیارہ، فطری نحس سیاروں سے کوئی نظر نہ بنا رہا ہو۔

جب سیارہ، ایک فطری سعد سے منصرف ہو کر دوسرے فطری سعد سے متصل ہورہا ہو۔

جب سیارہ، دو فطری سعد سیاروں کے مابین محصور (besieged) ہو۔

جب سیارہ، نیرین (شمس و قمر) سے تثلیث یا تسدیس رکھتا ہو۔

جب سیارہ، زائد النور ہو اور زائد العدد ہو (یعنی روشن ہو، اور شمس سے دور ہو)۔

جب سیارہ، اپنے ذاتی برج یا شرف یا دیگر مزاعم (dignities) میں ہو، یا اپنے فرح (joy) میں ہو۔

جب سیارہ، مقبول (received) ہو، اپنے مقامِ حلب (half)، یا حیز (hayyiz) میں ہو۔

نحوستِ سیارگان

جب سیارہ، فطری نحس سیاروں سے مقرن (conjunct) ہو یا ان سے مقابلہ اور تربیع میں ہو۔

جب سیارہ، فطری نحس سیاروں سے بہت قریب ہو، اور ان کے مابین ایک حدہ سے کم کا فاصلہ ہو۔

جب سیارہ، فطری نحس سیارہ کے برج میں پڑا ہو یا ان کے حدہ (bound) میں ہو۔

جب سیارہ سے دسویں یا گیارھویں گھر میں قابض فطری نحس سیارہ مستولی (حاوی) ہوکر ناظر ہو۔

جب سیارہ، نحس سیاروں سے بغیر قبول (reception) اور دفع (pushing) کے نظر رکھتا ہو۔

جب سیارہ، خود فطری نحس ہو، اور شمس سے مقرن ہو، یا نظر تربیع یا مقابلہ رکھتا ہو۔

جب سیارہ، خود خمسہ متحیرہ میں سے ہو، اور اپنے جوزھرات (planet’s_own_node) سے مقرن ہو۔

جب سیارہ، خود شمس یا قمر ہو، اور راس یا ذنب (lunar_node) کے بہت قریب موجود ہو۔

قوتِ سیارگان

جب سیارہ، اپنے اوج (apogee) میں ہو یا صاعد بہ شمال (northerly_ascension_in_orbit) ہو۔

جب سیارہ، احتراق سے دور ہو، یا اپنے مقام ابتدائے اور اختتام رجعت سے دور ہو۔

جب سیارہ، خانہ ہائے اوتاد (angle) یا مائل اوتاد (succedent) میں قابض ہو۔

جب سیارہ، بطور علوی سیارہ (superior)، شمس سے تشریقی (oriental) ہو۔

جب سیارہ، بطور علوی سیارہ، زائچہ کے مذکر ربع (masculine_quadrant) میں قابض ہو۔

جب سیارہ، بطور سفلی سیارہ (inferior)، شمس سے تغریبی (occidental) ہو۔

جب سیارہ، بطور سفلی سیارہ، زائچہ کے مؤنث ربع (feminine_quadrant) میں قابض ہو۔

ضعفِ سیارگان

جب سیارہ، جب سیارہ استقامت (stationary) یا رجعت (retrogression) کے باعث بہت سُست رفتار ہو۔

جب سیارہ، بطور عطارد یا زہرہ راجع بھی ہو، اور ساتھ محترق بھی ہو۔

جب سیارہ، درجات مظلمہ (dark_degrees) میں پڑا ہو، اور غروب بھی ہو۔

جب نہاری سیارہ (diurnal_planet)، دن کے زائچہ میں تحت الارض ہو یا رات کے زائچہ میں فوق الارض ہو، اور مؤنث برج ہو۔

جب لیلی سیارہ (nocturnal_planet)، دن کے زائچہ میں فوق الارض ہو یا رات کے زائچہ میں تحت الارض ہو، اور مذکر برج ہو۔

جب سیارہ، اپنے حضیض (descension) میں ہو یا صاعد بہ جنوب (southerly_descension_in_orbit) ہو۔

جب سیارہ، خانہ ہائے زائل اوتاد (cadent) میں پڑا ہو (بغیر کسی اوتاد میں قابض سیارہ کی معاون نظر کے)۔

جب سیارہ، بطور قمر، طریق محترقہ (via_combusta) یعنی اختتام میزان اور ابتدائے عقرب میں ہو۔

جب سیارہ، اپنے برج وبال (detriment) میں پڑا ہو (بغیر قبول کے)۔

جب سیارہ، کسی راجع سیارہ سے یا مفلوک الحال یا منحوس سیارہ سے مقرن ہو (بغیر قبول کے)۔

جب سیارہ، غریب (peregrine) ہو، یا ساقط النظر وحشی (feral) ہو۔

جب سیارہ، بطور علوی سیارہ (superior)، شمس سے تغریبی (occidental) ہو۔

جب سیارہ، بطور علوی سیارہ، زائچہ کے مؤنث ربع (feminine_quadrant) میں قابض ہو۔

جب سیارہ، بطور سفلی سیارہ (inferior)، شمس سے تشریقی (oriental) ہو۔

جب سیارہ، بطور سفلی سیارہ، زائچہ کے مذکر ربع (masculine_quadrant) میں قابض ہو۔

مذکورہ بالا فہرست میں شامل بہت سے اصطلاحات (terminologies) روایتی یونانی اور فارس-عرب نجوم کا حصہ ہیں۔ وقتی زائچہ کے اس مضمون میں یونانی نجوم کے تمام عناصر سمجھانا آسانا نہیں۔ انھیں میں آیندہ کسی فرہنگ یا تعارفِ نجوم کے مضمون میں بیان کروں گا۔ مجھے اندازہ ہے کہ بہت سے پاکستانی نجومیوں کے لیے یہ اصطلاحات ناموس اور نئی ہیں۔ تاہم یہ سب روایتی یونانی اور فارس-عرب نجوم کی بنیاد ہیں۔ زائچہ کے تجزیے اور پیش گوئی میں ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ انھیں جاننا اور سمجھا زیادہ مشکل نہیں۔ بس زرا سی لگن، اور تھوڑی محنت درکار ہے۔

روایتی یونانی اور فارس-عرب نجوم (Perso-Arabic_Astrology) کے بنیادی عناصر اور تکنیکیں جاننے کے لیے ان کتب کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا۔

پانچواں مرحلہ: تعینِ وقت

یہ مرحلہ ہر سوال کا حصہ نہیں۔ بلکہ ان سوالوں کے لیے مخصوص ہے جو مدت یا وقت (time) پر مبنی ہوتے ہیں۔ یعنی جہاں “کب” (when) کا عنصر شاملِ سوال ہوتا ہے۔ جیسے شادی کب ہوگی؟ نوکری کتنے عرصے بعد ملے گی؟ تبادلہ کس وقت ہوگا؟ ویزا کب لگے گا؟ حکومت کتنے عرصے چلے گی؟ بیماری کتنے دن بعد ختم ہوگی؟ میرے والدین حج کب کریں گے؟ اُدھار کی رقم کب واپس ہاتھ آئے گی؟ مکان کتنے عرصے بعد فروخت ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ۔

ایسے سوالات کے جواب دینے کے لیے وقتی زائچہ میں مدت کو تخمین کیا جاتا ہے۔ جس کی بنیاد پر ممکنہ پیش گوئی کے حصول کا وقت بتایا جاتا ہے۔ تعینِ وقت کی دو بنیادی اقسام ہیں۔حقیقی real اور علامتی symbolic۔

یہاں حقیقی سے مراد گردشِ سیارگان (real_time_planetary_transits) کے مطابق اخذ کردہ وقت ہے۔ چند اہم قواعد یہ ہیں۔

1۔ وہ وقت جب دلیلِ سائل سیارہ اور دلیلِ حاجت سیارہ، گردش (ٹرانزٹ) میں کامل قران یا کامل نظر بنائیں گے۔

2۔ وہ وقت جب دلیلِ حاجت سیارہ، گردش (ٹرانزٹ) کرتا ہوا سائل  کے گھر/برج میں داخل ہوگا۔

3۔ وہ وقت جب دلیلِ سائل سیارہ، گردش (ٹرانزٹ) کرتا ہوا حاجت کے گھر/برج میں داخل ہوگا۔

اگر سوال کی نوعیت یعنی مقصد منفی ہو (جیسے کسی کی ناکامی، رسوائی، گرفتاری، شکست، موت وغیرہ) تو:

4۔ وہ وقت، جب متعلقہ سیارہ (اپنی گردش کے دوران) محترق ہوگا، یا گرہن زدہ ہوگا، یا راجع ہوگا، یا اپنے برج ہبوط میں جائے گا۔

اگر سوال کی نوعیت یعنی مقصد مثبت ہو (جیسے کسی کی شہرت، عروج، کامیابی، رہائی، صحت وغیرہ) تو:

5۔ وہ وقت، جب متعلقہ سیارہ (اپنی گردش کے دوران) طلوع ہوگا، زائد العدد اور زائد النور (روشن) ہوگا، یا اپنے برج شرف میں جائے گا۔

مذکورہ بالا تعینِ مدت کے طریقے حقیقی گردشِ سیارگان (real_planetary_transits) سے اخذ کیے گئے ہیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق، وقتی زائچہ میں مدت شمار کرنے کا حقیقی (گردشی) طریقہ قدرے زیادہ معتبر ہے۔

٭ ٭ ٭

اس کے علاوہ تعینِ مدت کا دوسرا طریقہ علامتی وقت ہے۔ علامتی سے مراد دلیلِ سائل اور دلیلِ حاجت کے مابین درجاتی فرق (longitudinal_difference) سے استخراج کردہ وقت ہے۔ یہ طریقہ کم و بیش تمام وقتی زائچوں کی کتب میں کسی نہ کسی انداز سے دیا ہوتا ہے۔ اس کا پس منظر “تسیرات” یعنی پرائمری ڈائریکشن سے اخذ کردہ ہے۔

علامتی انداز سے تعین مدت کے اصول یہ ہیں۔

اگر سیارہ منقلب برج (حمل، سرطان، میزان، جدی) یا اوتاد (خانہ 1،4،7،10) میں ہو تو تکمیل کی مدت مختصر ہوگی۔ یہاں سائل اور حاجت کے درمیان درجاتی فرق کو گھنٹوں یا دنوں میں شمار کرتے ہیں۔

اگر سیارہ ذوجسدین برج (جوزا، سنبلہ، قوس، حوت) یا مائل اوتاد (خانہ 2،5،8،11) میں ہو تو تکمیل کی مدت درمیانی ہوگی۔ یہاں سائل اور حاجت کے درمیان درجاتی فرق کو ہفتوں یا مہینوں میں شمار کرتے ہیں۔

اگر سیارہ ثابت برج (ثور، اسد، عقرب، دلو) یا زائل اوتاد (خانہ 3،6،9،12) میں ہو تو تکمیل کی مدت طویل ہوگی۔ یہاں سائل اور حاجت کے درمیان درجاتی فرق کو مہینوں یا برسوں میں شمار کرتے ہیں۔

علامتی طور پر استخراج کردہ وقت کا ایک اور  طریقہ مدتِ سیارگان پر مبنی ہے۔ جس میں مختلف سیارگان کو مخصوص (علامتی) دنوں، ہفتوں، مہینوں وغیرہ سے منسوب کیا گیا ہے (جو سالانہ زائچہ میں بھی مستعمل ہے)۔ تاہم تعین وقت کے علامتی طریقوں میں پہلے بیان کیا گیا درجاتی فرق کا اصول زیادہ معروف ہے۔

تخمین مدت کے علامتی طریقے کو استعمال کرتے ہوئے زمینی حقائق کو مدِنظر رکھنا چاہیے۔ مثلاً اگر سوال یہ ہو کہ حاملہ بچہ کب جنے تو جواب لامحالہ مہینوں یا ہفتوں میں ہوسکتا ہے۔ اگر سوال ہو کہ باغ میں آم کا پودا لگایا ہے، یہ پھل کب دے گا۔ ظاہر ہے آم کا چھوٹا پودا یا قلم چند گھنٹوں، دنوں یا مہینوں میں پھل نہیں دے سکتا۔ اگر ایئر پورٹ پر کسی مسافر نے سوال پوچھا کہ اسکی مطلوبہ فلائیٹ کب آئیگی تو ظاہر ہے عام صورتحال میں اس کا جواب ہفتوں، مہینوں یا برسوں میں نہیں ہوگا، بلکہ گھنٹوں یا منٹوں میں ہوگا۔

اگر سوال ہو کہ آدم کو جنت سے کب نکالا گیا تھا؟ خلائی مخلوق کب زمین پر اترے گی؟ قیامت کب واقع ہوگی؟ تو ایسے دور ازکار سوالات وقتی زائچہ کے دائرہِ کار میں نہیں آتے۔ لہٰذا ان کے لیے تخمینِ مدت اور تعینِ وقت کا سوال خارج از بحث ہے۔

(سلسلہ جاری ہے)

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں