آسٹرولوجی اور پتھر کے صنم

2
955
remedies

آپ کی شادی کا مسئلہ ہے، یہ 5 ہزار کا پتھر خرید لیں۔ پراپرٹی کا کیس ہے تو 10 ہزار کا نقش لینا پڑے گا۔ سرکاری نوکری کے لیے اصلی گیڈر سِنگھی انڈیا سے منگوانی پڑے گی۔ مالی مشکلات ہیں تو 25 ہزار کی لوحِ مشتری بنوالیں۔ رشتوں کی رکاوٹ ختم کرنے کے لیے خاص استخارہ کرنا پڑےگا۔ کالے بکرے اور دیگر سامان کا خرچہ 50 ہزار تک ہوگا۔ آپ کی اولادِ نرینہ (بیٹا) پیدا نہ ہو، اس لیے سسرالیوں نے بندش کی ہوئی ہے۔ یہ علاج مہنگا ہے۔ بہن! آپ فجر کے بعد یہ وظیفہ پڑھیں، اور مغرب کے بعد یہ ورد کریں۔ پھر دیکھیں مخالفین کی زبانیں کیسے بند ہوتی ہیں۔ بھائی صاحب! ویزے کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ اگر زرقون پہننے سے مسئلہ حل نہ ہوا تو ڈائمنڈ (اصلی ہیرا) خریدنا پڑے گا۔ باجی! گھریلو ناچاقی ختم کرنے کے لیے پکھراج پہن لیں۔ میں سستا دلوادوں گا۔ منگنی بار بار ٹوٹ جاتی ہے تو “س” سے نام بدل کر “چ” سے رکھ لیں۔ بھائی، آپ ہفتے کے دن دریا میں کوئلے بہائیں۔ جناب! آپ نالے میں تانبے کے سکے ڈالیں۔ آپ منگل کے دن چیل کو گوشت کھلائیں۔ بدھ کی شام طوطوں کو ہری مرچ دیں۔ اور جمعرات کو چیونٹوں کو چینی ڈالیں۔ ہفتے کو 80 روپے کا صدقہ دیں، اور اتوار کو 100 روپے کا صدقہ دیں۔

پاکستان میں آسٹرلوجی کے بارے میں تجسس رکھنے والے عوام کو ایسے دعوے داروں اور ان کے بنے بنائے (ready-made) حل سے ضرور واسطہ پڑا ہوگا۔ ستم ظریقی دیکھیے، جو مشورے دے رہے وہ میٹرک فیل ہیں۔ اور جو مشورہ مان رہے وہ اچھے خاصے پڑھے لکھے گریجویٹ ہیں۔ اگر کسی کی عقل پر پتھر پڑے ہو تو ساری تعلیم دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔

کوئی اللہ کا بندہ نہیں سوچتا کہ آسٹرولوجی کیا ہے اور کیا نہیں۔ کیا آسٹرولوجی ۔۔۔ پتھر پہننے، استخارہ نکلوانے، روحانی عمل کروانے، نقش اور لوح بنوانے کا نام ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہم پاکستانی، انٹرنیٹ پر لچر تصویریں اور جعلی خبریں ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ توفیق نہیں ہوتی کہ جان سکیں کہ آسٹرولوجی کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ٹی وی پروگرام کرنے والے میزبان اور اخبار کے قابل مدیر بھی آسٹرولوجی کو خفیہ جادوئی علم یا من بہلانے کا شغل سمجھتے ہیں۔ جو سراسر زیادتی ہے۔ ٹی وی پر اگر صحت، تعلیم، معیشت، قانون، خارجہ پالیسی پر کوئی پروگرام ہو تو سوالات ترتیب دینے سے پہلے تحقیق ہوتی ہے۔ پروگرام سے قبل، مہمان کے انتخاب اور موضوع سے متعلق چھان پھٹک کی جاتی ہے۔ عام پروگراموں میں میزبان بحث کے دوران سوال در سوال (cross-questioning) کرتا ہے۔ لیکن آسٹرولوجر کے آگے سب کو سانپ سونگ جاتا ہے۔ کوئی تحقیق نہیں کرتا۔ کوئی سوال نہیں کرتا۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ پیش گوئی، کس کتاب (classical-text)، کس اصول اور کس قاعدہ سے اخذ کردہ ہے۔ آپ فلاں سیاست دان یا فنکار کی ذات سے متعلق پیشگوئی کررہے ہیں، زرا اُن کا مکمل زائچہ پیدائش تو پیش کیجیے۔ صرف نام کے پہلے حرف یا سن سائن سے اتنی اہم پیشگوئی کیسے ممکن ہے؟ جناب! آپ اتنے یقین سے پاک-بھارت مستقبل کے بارے میں پیشگوئیاں کر رہے ہیں، زرا پاکستان اور بھارت کا زائچہ قیام  اور تنجیمی تکنیکیں تو ناظرین کے سامنے بیان کیجیے۔ کوئی سوال نہیں، کوئی دلیل نہیں۔ ٹی وی پروگراموں کے پڑھے لکھے میزبانوں کا یہ حال ہے تو غور کیجیے آسٹرولوجر سے متعلق عام آدمی کی غلط فہمی کس درجے کی ہوگی۔ اب تو آپ کے موبائل پر گوگل موجود ہے۔ سرچ کرلیجیے۔ پڑھ لیجیے۔ تاکہ آسٹرولوجی کے نام پر لاعلمی اور توہمات کم ہوسکیں۔

آسٹرولوجر کے بارے میں دوسرا عام تاثر یہ کہ وہ کوئی افسانوی جادوگر ہے، جو آپ کے مستقبل کے تمام واقعات حرف بہ حرف بتاسکتا ہے۔ یہ تاثر اور دعویٰ سراسر غلط ہے۔ دنیا کا کوئی آسٹرولوجر جزیات سمیت سوفیصد مستقبل نہیں بتاسکتا۔ صرف موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے مستقبل کا موہوم خاکہ کھینچ سکتا ہے۔ تاہم صاحبِ زائچہ کے کردار اور نفسیات سے بخوبی آگہی مل سکتی ہے اور یہی اس علم کا بنیادی مقصد ہے۔ مستقبل بعید (far-future) سے متعلق اچھے سے اچھے آسٹرولوجر کی پیشگوئیاں 70 سے 80 فیصد تک درست ہوسکتی ہیں، وہ بھی اُس صورت میں جب کلائنٹ کا وقتِ پیدائش بالکل درست ہو اور آسٹرولوجر اہم تکنیکوں سے بخوبی آگاہ ہو۔ یہ بات میں عشروں کے مطالعے، مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔

یاد رکھیے آسٹرولوجی کی اپنی علمی حدود (limitations) ہیں۔ جیسے دیگر علوم اور ہنر کی حدود ہوتی ہیں۔ دوسری وجہ انسان کا اپنا ارادہ (will) اور جدوجہد (efforts) ہے۔ جس کے باعث مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کا دھارا بدل جاتا ہے۔ وہ قارئین جو “بٹرفلائی ایفکٹ” (butterfly-effect) نامی نظریے سے واقف ہیں، وہ بخوبی اس بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ میری رائے میں انسان نہ تو مجبورِ محض ہے، اور نہ مختارِ کامل۔ جبر (fate) اور قدر (free-will) دونوں انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔ لہٰذا انسان کی جانب سے کی گئی ادنیٰ سے کوشش یا غلفت بھی اس کے مستقبل کو لامحالہ متاثر کرتی ہے۔

میں آسٹرولوجی کو خود آگہی اور خود شناسی (self-awareness) کا علم سمجھتا ہوں۔ اسی بنیاد پر تسلی بخش پیشگوئی بھی ممکن ہے۔ کیونکہ مخصوص فکر اور فطرت، انسان کو مخصوص راہِ حیات پر لے جاتی ہے۔ لیکن پاکستانیوں کی اکثریت نے آسٹرولوجی کو توہمات کی پوٹلی اور پتھروں کا پہاڑ سمجھ رکھا ہے۔

ایک آسٹرولوجر، زائچہ پیدائش کے ذریعے آپ کو مثبت اور منفی خصوصیات سے آگاہ کرتا ہے۔ اسی بنیاد پر آنے والے واقعات سے باخبر کرتا ہے۔ یعنی آسٹرولوجر کا بنیادی کام علمی مشورہ دینا (consultancy) ہے۔ پتھر بیچنا نہیں۔ علمی مشورہ وہی دے سکتا ہے۔ جس نے علم کو پڑھا ہو، سمجھا ہو، اور سیکھا ہو۔ ریاضت کے ساتھ عملی مشق بھی کی ہو۔ جیسے ایک ماہرِ قانون، معیشت دان، یا طبیب، اپنے علم، ہنر اور تجربے کی روشنی میں مشورہ دیتا ہے۔ مشورے پر عمل کرنا رجوع کرنے والے (کلائنٹ) کا کام ہے۔ آسٹرولوجی کے ذریعے بھی کچھ اسی نوعیت کی علمی مشاورت دی جاتی ہے۔ چونکہ آسٹرولوجی زرا مشکل اور ریاضت طلب علم ہے۔ اس لیے بہت سے نام نہاد آسٹرولوجر، آسٹرولوجی کے بجائے پتھر بیچنے اور من چاہے وظائف بتانے تک محدود ہیں۔ یعنی ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ دوسری جانب آسٹرولوجر سے رجوع کرنے والے عوام بذاتِ خود نہ تو علمی مشورے میں دلچسپی رکھتے ہیں، اور نہ خود آگہی چاہتے ہیں۔ انھیں بس اپنے مسائل کا جادوئی حل چاہے: چاہے وہ لکی اسٹون ہو، یا لکی نمبر، وظیفہ ہو، یا لوح۔

گذشتہ دس پندرہ برس کے دوران ٹی وی چینلز اور یوٹیوب کی وجہ سے آسٹرولوجی کو کافی شہرت ملی۔ ماضی میں عوامی حد تک بہت ہوا تو اخبار میں “یہ ہفتہ کیسا رہے گا” کا سطحی سا کالم ہوا کرتا تھا۔ اس کی روایت بھی کچھ زیادہ پرانی نہیں۔ موجودہ دور میں ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے عوامی پزیرائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی بابے اور عاملین اب اپنے آپ کو آسٹرولوجر کہنے لگے ہیں۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے عامل موتی رام کے بھانجے بھتیجے کراچی میں نام بدل کر یہی دھندا کررہے ہیں۔ روحانیت کے دعوے اتنے بڑے بڑے کہ فرشتے حیران ہوجائیں۔ اور حقیقت یہ کہ جنسی ہراسگی اور مالی دھوکا دہی کے مقدمات میں ملوث ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ آسٹرولوجر لاہور میں پائے جاتے ہیں کیونکہ وہاں پیشگوئی کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے۔ جب ڈیمانڈ ہوگی تو سپلائی خود بخود پیدا ہوجائے گی۔ اس لیے چند برسوں کے اندر نجومیوں کے فوج تیار ہوگئی۔ ان کی دیکھا دیکھی کچھ فال گیر، جفار، نمرولوجر، ٹیروکارڈ ریڈر اور استخارہ نکالنے والے بھی اپنے نام کے ساتھ آسٹرولوجر لکھنے لگے ہیں۔ کیونکہ اس طرح گاہگ آسانی سے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ آفس کے گیٹ پر آسٹرولوجر کا بورڈ لگا ہو تو علاقے کی پولیس زیادہ تنگ نہیں کرتی۔ آسٹرولوجی کے برقعے میں کلائنٹ کو لوح بیچیں یا تعویز۔ صدقہ بتائیں یا اُتارا۔ عمل بتائیں یا پتھر پہنائیں۔ اللہ اللہ خیر صلہ۔

اگر پتھر پہننے سے رشتے پکے ہوجاتے، نوکریاں لگ جاتیں، اور جائیداد مل جاتی تو ساری دنیا کپڑوں کے بجائے صرف قیمتی پتھر پہن کر گھوم رہی ہوتی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، ناروے، اور دیگر ترقی یافتہ ممالک اپنے سائنسی علم، دفاعی حکمتِ عملی اور جدوجہد کے بجائے پتھروں پہ تکیہ کرتے۔ جاپان اور چین بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے بجائے صرف پتھر پہن کر ترقی کرتے۔ اس کے برخلاف ہمسائے ملک بھارت کی مثال لیجیے، جہاں ہر بے چارہ کوئی نہ کوئی “اُپائے” کررہا ہے۔ انگلی میں انگوٹھی ہے، کلائی میں دھاگا ہے، اور گلے میں مالا ہے۔ ہر گھر، ہر دکان، ہر ٹیکسی، ہر رکشہ میں ینتر (نقش/تعویز) لٹکا ہوا ہے۔ اگر “لکشمی ینتر” سے دولت آتی تو بھارت دنیا کا امیرترین ملک ہوتا۔ لیکن حقیقت یہ کہ آج بھی دنیا کی سب سے بڑی غریب آبادی بھارت میں رہتی ہے۔ اگر وظائف اور پتھروں سے قسمت بدلتی تو پیرپگارا اور مولانا فضل الرحمٰن کب کے وزیراعظم پاکستان بن چکے ہوتے۔ بلکہ ساری زندگی وزیراعظم ہی رہتے۔ دوسری جانب قیمتی پتھروں کی کانوں (mines) میں کام کرنے والے غریب کان کن مزدور بہت خوشحال اور خوش قسمت ہوتے۔ پاکستان کے صوبہ خیبرپختون خواہ، اور بلوچستان میں قیمتی پتھروں کی کافی کانیں ہیں۔

پتھر سے قسمت نہیں بدلتی۔ دنیا کا کوئی آسٹرولوجر کوئی پتھر کسی کی قسمت نہیں بدل سکتا۔ جو ایسا سمجھتا ہے یا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ یا تو خود احمق ہے، یا آپ کو احمق بنارہا ہے، وہ بھی تین چار ہزار روپے فیس بٹورنے کے بعد۔ چھوٹے شہروں اور قصبات میں موجود بہت سے فراڈیے تو آسٹرولوجی کے نام پر کلائنٹ کو پہلی بات یہ بتاتے ہیں کہ آپ پر جنات کا سایہ ہے، یا بندش کی ہوئی۔ یہ بھی کمال کا کاروباری گر ہے۔ گربہ کشتن روز اول۔

آسٹرولوجی ایک لطیف اور مفید علم ہے۔ جس میں کئی رمز اور لطافتیں پوشیدہ ہیں۔ ماضی میں علمِ نجوم خواص کے حلقے تک محدود تھا۔ یہاں ‘خواص’ سے مراد نودولتیے کاروباری، یوٹیوب کے باباجی، یا پیسے والے سیاستدان نہیں۔ بلکہ سائنس اور ریاضی سمجھنے والے پڑھے لکھے باشعور افراد ہیں، جو نجوم میں دلچسپی رکھا کرتے تھے۔ علم کو علم سمجھا کرتے تھے۔ کامیڈی شوز کا شغل میلہ یا لکی اسٹون بیچنے کا بہانہ نہیں۔ حضرت امیرخسرو، عمرخیام، غالب اور مومن جیسے شعرا علمِ نجوم جانتے تھے۔ ابنِ سینا جیسا شہرہ آفاق طبیب نجوم کا عالم تھا۔ البیرونی جیسا جہاندیدہ شخص نجوم کا ماہر تھا۔ بطلیموس جیسے عالم، الکندی جیسے فلسفی، ابوبکر جیسے ریاضی دان، ابومعشر جیسے شیخ الحدیث، ابنِ عربی جیسے صوفی، عبدالرحیم خانِ خاناں جیسے حکمران نے علمِ نجوم پر کتابیں لکھی ہیں۔ ہندوستان، مصر اور یونان میں نجوم کے سیکڑوں علما اور حکما گزرے ہیں۔ ان کی کتابوں کا نچوڑ مشاورت کے لیے علمی آگاہی ہے۔ کم سے کم نجوم کی کسی مستند کتاب میں پتھروں، تعویزوں، بندش، اُتارا، وظائف، طلسم اور لوحِ شرف کی چکربازی موجود نہیں۔

میرے ایک نجومی دوست جو کافی دین دار ہیں۔ ایک دن کہنے لگے کہ قران میں یاقوت، لولو اور مرجان کا ذکر ہے۔ آپ کیسے پتھر پہننے سے انکاری ہوسکتے ہیں۔ میں نے جواب دیا، میں پتھر پہننے کا بالکل مخالف نہیں۔ میں اسے نجوم سے زبردستی جوڑنے، اور عوام کی لاعلمی کا استحصال (exploitation)  کرنے کا مخالف ہوں۔

قران میں چند مقامات پر قیمتی حجر (جیم اسٹون) کا ذکر موجود ہے۔ وہ جنت میں عطاکردہ نعمتوں یا زیبائش کے معنوں میں ہے۔ جیسے قران میں دیگر نعمتوں مثلاً ٹھنڈی نہروں، میٹھے چشموں، دودھ، شہد، میوہ جات، سونے چاندی، حور و غلمان وغیرہ کا تذکرہ ہے۔ قران، نعوذباللہ نجوم کی کتاب نہیں، جسے ڈھال بنا کر ہم آپ آسٹرولوجی کے قواعد کی تصدیق یا تردید کرتے رہیں۔ اس کے علاوہ کئی انبیائے کرام، اہلِ بیت، صحابہ، صوفیا، علماء بلکہ حکمران بھی پتھر پہنا کرتے تھے۔ کچھ مہر (stamp) کی غرض سے، کچھ زیبائش کی خاطر، کچھ روایت کی پاسداری میں، کچھ نشانی کی طور پر، کچھ شاہانہ علامت کے طور پر۔ ان کے عقیدت مند بھی ایسا کرتے ہیں تو کچھ حرج نہیں۔ لیکن یہ نہ تو کوئی لازمی امر ہے، اور نہ نجوم کا جزوِ لاینفیک۔ اس کے علاوہ بعض پتھروں کو طب میں دوا کا حصہ بنایا جاتا، اور بعض پتھروں سے نفسیاتی امراض کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔ یہاں ان کی حیثیت جزوِ دوا کی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے۔

میرے ایک اور آسٹرولوجر دوست ہیں، جو اُپائے اور پتھروں سے، کلائنٹ کے ہر مسئلے کا حل بتاتے ہیں۔ ٹی وی پروگراموں کی کافی معروف شخصیت ہیں۔ ایک دن میری یہ بات سن کر غصہ ہوگئے۔ کہنے لگے وراہامہیر کی کتاب میں نو رتنوں (یعنی 9 قیمتی پتھروں) کا ذکر موجود ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اولاً میں پتھروں کے خواص کے خلاف نہیں۔ لیکن اسے نجوم کا بنیادی حصہ نہیں مانتا۔ دوم یہ کہ جہاں تک وراہامہیر، پاراشر اور جیوتش کی دیگر کتب کا سوال ہے تو اس میں اعضائے جسمانی اور بیماریوں کے نام بھی ہیں، تو کیا ہم آسٹرولوجی کو میڈیکل سائنس کہیں گے؟ نجوم کی قدیم کتب میں جانوروں کے بھی نام ہیں، تو کیا ہم آسٹرولوجی کو ذولوجی بنادیں گے؟ اس میں جغرافیائی مقامات کے بھی نام ہیں، تو کیا ہم آسٹرولوجی کو اٹلس قرار دیں گے؟ اس میں کھانے پینے کی اشیا کی فہرست بھی ہے، تو کیا نجوم کو کوکنگ بُک سمجھیں گے؟ اس میں دھاتوں کا ذکر بھی ہے تو کیا آسٹرولوجی کو کیمسٹری فزکس کہیں گے؟

بنیادی بات یہ کہ آسٹرولوجی، وقت کا علم ہے۔ اس کا موضوع اور مخاطب انسان ہے۔ انسان جو زندگی کے مختلف ادوار میں مختلف حالات سے گزرتا ہے۔ نجوم، اس انسانی زندگی کا ایک منفرد ماڈل پیش کرتا ہے۔ جسے زائچہ پیدائش سے پہچانا جاتا ہے۔ اس لیے آسٹرولوجی کی کتب میں زندگی کے تمام اہم دائرہ کار کے بارے میں حوالے اور اشارے موجود ہیں۔

جہاں تک جیوتش کی کتب میں 9 قیمتی پتھروں کو 9 سیارگان سے نسبت دی گئی ہے، تو اس کا بنیادی مقصد نہ تو ان پتھروں کو مہنگے داموں خرید کر پہننا ہے، اور نہ ہی ان کی وجہ سے قسمت بدلنے کا منتظر رہنا ہے۔ پرانے زمانے میں مال و دولت کی کئی صورتیں ہوا کرتی تھیں۔ مثلاً سونا، چاندی، تابنا، لوہا، لکڑی، کوئلہ، نمک، اناج، بھیڑ گائے بکری، ہیرے، موتی، نیلم، مونگا، پکھراج وغیرہ۔ انھیں مبادلے (barter) اور پیشہ ورانہ لین دین (exchange) کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ قیمتی پتھر (رتن) دھن دولت کی اعلیٰ صورت تھی۔ اس کے علاوہ جنگی مالِ غنیمت اور دفینے اکثر قیمتی پتھروں اور جواہرات کی شکل میں ہوا کرتے تھے۔ اس کا واضح اشارہ جیوتش کتب کے دَشا ادھیائے (باب ادوار) میں موجود ہے۔ جس سیارے کی دَشا (دور، پیریڈ) جاری ہو اس سے منسلک اشیا (بشمول رتن) سے فائدہ (یا نقصان) ممکن ہے۔

جیوتش یعنی انڈین آسٹرولوجی میں 9 سیارگان کو 9 پتھروں سے منسوب کیا گیا ہے، 12 بروج سے نہیں۔ اگرچہ جیوتش کی سنسکرت کتب میں پتھر پہننے کی ترغیب نہیں دی گئی۔ لیکن اگر کسی کو پتھر پہننے کا شوق ہوتا تو روایتی طور پر جنم راس (پیدائشی قمری برج) کے مالک سیارہ سے متعلق رتن (پتھر) تجویز کیا جاتا، چاہے قمر کسی بھی گھر میں ہو۔ آج کل لگن کے مالک (یعنی حاکم طالع سیارہ) کو فوقیت دی جاتی ہے بشرطیکہ وہ اچھے گھر میں ہو۔ ایک اور اہم قاعدہ جاری دور (دَشا) کے مالک سیارہ سے منسوب رتن (پتھر) ہے۔

سرزمینِ ہندوستان ۔۔۔ جہاں توہمات کی جڑیں ہزاروں سال پرانی ہیں۔ جہاں بہت سے عقائد تواہم کی مٹی میں گوندے ہیں۔ وہاں بھی جیوتش اور اُپائے ایک کتاب میں نہیں سموئے گئے۔ کم سے اکیسویں صدی کے کمرشل ازم سے پہلے تک یہی صورتحال تھی۔ ہندوستان میں اُپائے پر قدیم اصول و ضوابط موجود ہیں، جس کی ابتدا ہزاروں برس پرانے “اتھروید” سے ہوتی ہے، جو بعد میں “تنتر وِدیا” کا حصہ بنے۔ لیکن تاریخی طور پر اُپائے اور جیوتش دو مختلف عنوان رہے ہیں۔ بعض پنڈت، اِن دونوں میدانوں کے ماہر ہوا کرتے تھے۔ لیکن ان کی مکس پلیٹ نہیں بناتے تھے۔ جیوتش کی اصل سنسکرت کتب میں شازونادر ہی وہ اُپائے ملیں گے، جو آج کل فیشن میں ہیں۔ میں نے آج تک جیوتش کا ایسا سنسکرت شلوک نہیں دیکھا جس میں لکھا ہو کہ آپ کے لگن کا مالک شنی ہے، اس لیے آپ نیلم ضرور پہنیں۔ یا آپ 14 تاریخ کو پیدا ہوئے تھے اس لیے آپ کا لکی نمبر 5 ہے۔ یا آج منگل ہے اس لیے 9 روپے صدقہ کریں۔ اگر کوئی شخص مجھے ایسا جیوتش شلوک نکال کر دکھا دے تو میں اس کی شاگردی اختیار کرلوں گا۔ یہ ساری چکر بازی گذشتہ چند عشروں کے دوران وجود میں آئی ہے۔ کیونکہ عوام اپنی مالی مشکلات اور نجی مسائل کا فوری حل چاہتے ہیں۔ انھیں علمی مشورہ نہیں، پتھر کا صنم چاہیے۔

جیوتش کی چند قدیم کتب میں ایک آدھ مقام پر اُپائے کے اشارات ضرور ہیں۔ یعنی سفرِ زیارت (تیرتھ یاترا)، ورد (منترسادھنا) یا ضرورت مندوں کی امداد (دان) کا حوالہ ہے۔ وہ بھی بہت سنگین صورتحال کے حل کے لیے۔ یعنی یہ روزانہ کی بنیاد پر کرنے والی تدابیر نہیں۔ بیشتر سنسکرت کتب صرف نجوم کے بنیادی اصول و ضوابط بیان کرتی ہیں۔ یہی فکری رویہ قدیم عربی نجوم اور لاطینی نجوم کی کتب میں بھی موجود ہے۔

مسئلہ کا تاریخی جائزہ

ٹونے، ٹوٹکے، بندش کا توڑ، سحر، طلسم، نقش، لوح، وظائف، ورد، سعد اور نحس شگن، خوش قسمتی لانے والے پتھر اور اس جیسے حل المسائل اور اُپائے (remedies) بہت پرانے، بہت ہی پرانے ہیں۔ ہزاروں برس پرانے۔ ہر دور اور ہر جگہ ان کا چلن رہا ہے۔ کہیں کھلے عام، کہیں ڈھکے چھپے انداز میں۔ کہیں عقیدے کی آڑ میں، کہیں روحانیت کے نام پر، کہیں سماجی رسم کی وجہ سے، تو کہیں خوف کے سبب۔ یہاں میرا موضوع ان کی حمایت یا مخالفت نہیں۔ بلکہ ایک تاریخی حقیقت سے آگہی دینا مطلوب ہے۔

انیسویں صدی سے پہلے تک “حل المسائل” کے ان تمام ذرائع اور تدابیر کو آسٹرولوجی کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔ اگرچہ آسٹرولوجی کی معلوم تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ تاہم یہ سب ذرائع آسٹرولوجی سے ایسے منسلک نہیں تھے جیسے آج کل ہیں۔ آپ کو پتھر، نقش، لوح یا تعویز پہننے کا شوق ہے، ضرور پہنیے۔ یہ کام آسٹرولوجی کے بغیر بھی ممکن ہے۔ بلکہ پرانے زمانے میں آسٹرولوجی کے بغیر بھی ہوا کرتا تھا۔ بلکہ کچھ عشرے پہلے تک یہ سب کام نام اور ماں کے نام کی مدد سے کیا جاتا تھا۔

واضح رہے کہ نام اور ماں کے نام سے کسی کا زائچہِ پیدائش (birth-horoscope) نہیں بن سکتا۔ زائچہ صرف مکمل تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش اور مقامِ پیدائش کی مدد سے ہی بنایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ آسٹرولوجی، وقت کا علم (ہورا شاستر) ہے۔ ملاحظہ کیجیے مضمون زائچہ کیا ہوتا ہے۔

دراصل موجودہ دور میں قدیم جفر، اور جدید علم الاعداد کی کھچڑی بنادی گئی ہے۔ اور اسے آسٹرولوجی سے زبردستی جوڑ دیا گیا ہے۔ علمی نکتہ نظر سے بھی یہ دانش مندی نہیں۔ اس غلط فہمی کے پسِ پردہ سطحی کتابیں اور جنتریاں ہیں۔

انیسویں صدی (1801 سے 1900) سے پاک و ہند میں ایک نئی شے کا ظہور ہوا۔ جسے “جنتری” (almanac) کہتے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب پرنٹنگ پریس کی آمد کے ساتھ دلی، لاہور، جالندھر، بمبئی اور کلکتہ میں جنتریاں چھپنے لگیں۔ بدقسمتی سے سترھویں سے انیسویں صدی تک کے عرصے کو مشرق و مغرب میں آسٹرولوجی کا تاریک دور کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس دور میں پڑھے لکھے علما اور ریاضی دانوں کی توجہ حقیقی علم نجوم کی جانب بہت کم رہی۔ دوسری جانب جو افراد جنتریاں اور اس طرح کے رسائل نکالنے کی جانب پہلی بار راغب ہوئے وہ بنیادی طور پر آسٹرولوجر نہیں تھے۔ بلکہ عامل (exorcists) تھے، جفار تھے، رَمّال تھے، یا ٹونے ٹوٹکوں سے دیسی علاج کیا کرتے تھے۔ بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں (1901 سے 1940) تک مقامی جنتریاں، ہندوستان کی عوامی زندگی کا حصہ بن چکی تھی۔ لال کتاب (Lal Kitab) اسی دور میں لکھی گئی۔ اسے آج کل، اُپائے کا انمول خزانہ سمجھا جاتا ہے۔ اُپائے کے برعکس، لال کتاب میں موجود “نشستِ سیارگان اور قِران سیارگان” کے اثرات کا مطالعہ کہیں زیادہ مفید ہے۔ خیر یہ ایک الگ علمی موضوع ہے۔

دوسری جانب مغرب میں انیسویں صدی کے اواخر سے ایک نئی فکری جہت کا آغاز ہوا جسے تھیوسوفی (Theosophy)  کہا گیا۔ تھیوسوفی سے دلچسپی رکھنے والوں میں چند معروف یوروپی ماہرینِ نجوم بھی شامل تھے۔ بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں (1901 سے 1940) تک تھیوسوفٹ آسٹرولوجر، مذاہب عالم اور ہندو تصوف کے اہم نظریات کو آسٹرولوجی کے چشمے سے دیکھنے لگے۔ ان چلن کا نتیجہ یہ ہوا کہ کرما، چکرا، آواگون، قبالہ، کلرسٹل، مقدس اعداد (سیکرڈ نمبرز)، مقدس علامات (سیکرڈ سمبل) جیسے عنوانات، آسٹرولوجی سے جڑ گئے۔ تھیوسوفی کی تحریک سے قبل، یہ مابعدالطبیعیاتی موضوعات، عوامی نجوم کا حصہ نہیں بنے تھے۔ اس فکری انضمام (merger) کا فائدہ کم، اور نقصان زیادہ ہوا۔

تاہم 1940 کے اواخر اور 1950s سے مشرق اور مغرب دونوں جگہ، یہ رجحان دم توڑ گیا۔ کیونکہ یوروپ، جنگی تباہ کاریوں سے نکل کر تعمیرِ نو میں مصروف تھا۔ اور برصغیر کا معاشرہ سیاسی اور سماجی الجھنوں میں گرفتار تھا۔ برصغر پاک و ہند میں کم و بیش سن 2000 تک اُپائے، استخارے، لکی نمبر، لکی اسٹون وغیرہ کا کاروبار بہت محدود تھا۔ اگرچہ جنتریاں اور روحانی رسالے چھپتے رہے۔ اس میں شرف کی لوحیں بنانے کی ترکیبیں، لاٹری کے نمبر، گرہن کے نقوش اور جفر کے طریقے بھی دیے جاتے۔ لیکن عوامی پذیرائی بہت محدود تھی۔

سن 2001 سے وقت نے نئی کروٹ لی۔ نئی صدی کے ساتھ انٹرنیٹ کا عروج شروع ہوا۔ مغرب میں کرسٹل ہیلنگ، اسپریچوئل ہیلنگ، اروما تھراپی، وِچ کرافٹ کے کاروباریوں نے ویب سائٹس بنانا شروع کردیں۔ باڈی-مائینڈ-سول (body-mind-soul) کے الفاظ روزمرہ زندگی کا حصہ بنتے گئے۔ ساتھ ہی گمشدہ لال کتاب (Lal_Kitab) بذریعہ انٹرنیٹ دوبارہ منظر عام پر آئی۔ دوسری جانب آیوروید کے نام پر جنسی طاقت اور بے اولادی کی دواؤں کی انٹرنیٹ پر بھرمار ہوگئی۔ پرانے ٹونے ٹوٹکوں کو نیا رنگ دے کر بیچا جانے لگا۔ بھارت میں تو اس کاروبار نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی۔ رُدرکشامالا، ہتھ جوڑی، گیدڑ سنگھی، سپت دھاتو، سانپ کی کینچلی، شیر کا دانت، گھوڑے کی نال، اُلو کی آنکھ، بلی کی ناف، موہنی تنتر، لکشمی ینتر، سبر منتر ۔۔۔ غرض ہر گم گشتہ اُپائے، منافع بخش کاروبار کا ذریعہ بن گیا۔

اُپائے کا دھندا اس لیے بھی بڑھا کہ پبلک ڈیمانڈ تھی۔ اکیسوی صدی کی نئی شہری زندگی، اعلیٰ تعلیم، مسابقت کی دوڑ، اور کاروباری مصروفیات کے ساتھ عوام کی نجی دشواریاں اور مالی مسائل بھی لامحالہ بڑھے۔ اسی دوران پاکستان کے ٹی وی چینلز پر آسٹرولوجروں کی پہلی بار آمد ہوئی۔ جسے زبردست عوامی پذیرائی ملی۔ اسکرین کے ذریعے عوامی تاثر کچھ ایسا بنا گویا آسٹرولرجر کی جیب میں مؤکل بیٹھا ہے جو آپ کی زندگی کے تمام واقعات قبل از وقت بتانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی ہوشیار کاروباریوں نے آسٹرولوجر بن کر کرائے کے پیڈپروگرام (paid-programs) نشر کروانا شروع کردیے۔ چھوٹے ٹی وی چینلز کے مالکان کو پیسہ چاہیے، صحیح غلط سے کیا وابستہ۔ آسٹرولوجی کا صرف نام تھا۔ اصل دھندا پتھروں کا تھا یا خود نمائی کا۔ مارننگ شو، کامیڈی شو، اسپورٹس شو، اور رمضان نشریات میں آسٹرولوجر کی شرکت فیشن بن گئی۔ پھر سوشل میڈیا کی گہماگہمی اور یوٹیوب کے ریٹنگز کی دوڑ شروع ہوگئی۔ جو اب تک جاری ہے۔

اگر آپ ان تمام تاریخی وجوہات کا جائزہ لیں تو سمجھ آجائے گا کہ فی زمانہ ٹی وی، یوٹیوب چینلز اور موبائل ایپس کے ذریعے جو حل المسائل یعنی اُپائے (remedies) بتائے جاتے ہیں۔ وہ کس راہ سے ہوکر آپ تک پہنچے ہیں۔

مسئلہ کا نفسیاتی جائزہ

تاریخی جائزے کے بعد اُپائے کا نفسیاتی جائزہ لیتے ہیں۔ ماڈرن میڈیکل سائنس میں ایک اصطلاح ہے “پلےسیبو ایفیکٹ” (placebo_effect)۔ اسے اردو میں “نفسیاتی طمانیت کا اثر” کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا طبی حیلہ ہے۔ جو کمزور اعصاب کے مریضوں یا وہمی افراد پر آزمایا جاتا ہے۔ تاکہ وہ وقتی سکون حاصل کرسکیں۔

آپ کو کئی ایسے خواتین و حضرات سے واسطہ پڑا ہوگا، جو ہر دوسرے دن بیمار پڑ جاتے ہیں۔ دراصل انھیں کوئی عارضہ لاحق نہیں ہوتا۔ لیکن ان کا پریشان ذہن ہر دوسرے دن ایک نئی بیماری ایجاد کرکے جسم پر لاگو کردیتا۔ ایسا مریض لامحالہ کسی جادوئی دوا  اور معجزاتی علاج کا منتظر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کو معلوم ہوتا ہے کہ حقیقتاً کوئی مرض نہیں۔ لیکن وہ مریض سے براہِ راست یہ سچ نہیں کہتا۔ کیونکہ مریض یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر ایسے بناوٹی “مریضوں” کو بے اثر (ineffective) گولی، شربت یا انجیکشن دیتا ہے۔ دوا ملتے ہی مریض اپنے آپ کو صحت مند محسوس کرنے لگتا ہے۔ ڈاکٹر کو فیس مل گئی۔ میڈیکل اسٹور والے کی دوا بِک گئی۔ اور مریض کو اپنے پرفریب مرض سے شفا مل گئی۔ یعنی سب خوش۔ یہ ہے “پلےسیبو ایفیکٹ” (placebo_effect) یا “نفسیاتی طمانیت کا اثر” کا کمال۔

دوسری نفسیاتی وجہ اندھا یقین (blind_faith) ہے۔ اگر آپ کسی شے (جگہ، پتھر، دھات، علامت، نمبر وغیرہ) پر اندھا اعتبار یا کسی فرد پر اندھا یقین کرنا شروع کردیں۔ اور یقین کی بنیاد پر اس سے امیدیں باندھ لیں یا خوفزدہ ہونے لگیں، تو ایسا یقین ذہن پر لامحالہ اثر ڈالتا ہے۔ جب یہ یقین لاشعور کی حد تک چلا جائے تو پھر اس کا اثر آپ کے افعال (ایکشن) میں جھلکنے لگتا ہے۔یعنی جیسا اندیشہ یا خوف لاشعور میں ہوتا ہے، ویسے ہی افعال سرزد ہوتے ہیں اور ویسے ہی نتائج سامنے آتے ہیں۔ یہ سب انسانی نفسیات کا کمال ہے۔ تاہم اس بنیاد پر آپ سیاہ کو سفید، اور دن کو رات نہیں بناسکتے۔

تیسری اور سب سے اہم وجہ “وقت” (time) کی فطری تبدیلی ہے۔ وقت ہر لمحہ بدل رہا اور وقت کے ساتھ کائنات کی ہر شے متحرک ہے۔ انسان میں بھی گزرتے وقت کے ساتھ تبدیلیاں آتی ہے۔ اس کے اندر بھی اور گردوپیش میں بھی۔ اس لیے حالات و واقعات کا وقت کے ساتھ بدلنا ایک فطری عمل ہے۔

ٹونے، ٹوٹکے، نقش، لوح، وظائف، جھاڑ پھونک، سعد اور نحس شگن، لکی اسٹون، لکی چارم، لکی کوائین، لکی نمبر کے استعمال کے پس پردہ بھی کم و بیش یہی تینوں وجوہات پوشیدہ ہیں۔ ہر کیس میں نہیں، لیکن بیشتر صورتوں میں (1) “نفسیاتی طمانیت کا اثر”، (2) “اندھا یقین” اور (3) فطری “تبدیلیِ وقت” کے نتائج کارفرما ہوتے ہیں۔

چونکہ  کمزور اعصاب کے افراد کو پریشانیوں کے حل کے لیے کسی “بُت” کی تلاش ہوتی ہے۔ جادوئی اثرات والا ایسا بُت، جو مشکل کُشا کا کام کرے۔ جس پر بھروسہ اور یقین رکھا جاسکے۔ جو مصائب سے نجات دلا سکے۔ اس لیے وہ اپنی ہر کامیابی یا حصولِ مقصد کی وجہ اُپائے (پتھر، لوح، نقش، ٹوٹکے) کو قرار دیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ تبدیلیِ وقت کے ساتھ اُپائے (نفسیاتی تدابیر) نے بھی معاون کا چھوٹا موٹا غیر مرئی کردار ادا کیا ہو۔ لیکن اُپائے کو کامیابی-ناکامی کی بنیادی وجہ قرار دینا دانش مندی نہیں۔

تدابیر اور اُپائے کی حقیقت

آج کی دنیا سُکڑ کر گلوبل ولیج بن گئی ہے۔ انٹرنیٹ نے دنیا جہان کے نئے پرانے ٹونے ٹوٹکے آپ کی موبائل اور لیپ ٹاپ اسکرین پر جمع کردیے ہیں۔ موجودہ دور میں دستیاب تدابیر اور اُپائے مختلف زمانوں، میدانوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان سب کو آنکھ بند کر نہ تو رد کیا جاسکتا ہے، اور نہ ان پر اندھا اعتبار کیا جاسکتا ہے۔

کئی تدابیر اور اُپائے ایسے ہیں جو پرانے زمانے کی زندگی سے وابستہ خوف اور خطرات کی وجہ سے اختیار کیے گئے۔ وہ قدیم دیہاتی، مشکل پہاڑی یا کٹھن صحرائی طرزِ حیات کے لیے تو شاید موزوں ہوں۔ لیکن جدید دور کی شہری زندگی میں ان کی حیثیت فقط توہم کے علاوہ کچھ نہیں رہ گئی۔

تاہم کچھ تدابیر یعنی اُپائے ایسے ہیں، جن کی بنیاد قدیم طبی مشاہدات (old_medical_observations) پر ہے۔ کیونکہ اس میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹیاں، دھاتیں، نمکیات اور اجزا اپنے طبی اثرات رکھتے ہیں۔ اسی طرح بعض اُپائے، علم النفس (سُوار شاستر swara_sastra) سے اخذ کردہ ہیں۔ سانس کا جسم اور ذہن سے براہِ راست تعلق ہے۔ لیکن یہ طبی تدابیر اور اُپائے صرف ماہر حکیم اور طبیب کے ہاتھوں اچھے لگتے ہیں۔ پاکستان میں شاید گنتی کے دو چار آسٹرولوجر ہی ہوں جنھوں نے طب کی باقاعدہ تعلیم و تربیت حاصل کی ہو۔

کچھ اُپائے ایسے ہیں، جن پر عوام بن کہے عمل کرتے ہیں (خاص طور پر برصغیر پاک و ہند کے عوام)۔ بلکہ اکثریت کو معلوم ہی نہیں کہ وہ اُپائے ہیں۔ کیونکہ وہ عام رہن سہن اور سماجی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ مثال کے طور پر شادی شدہ عورت کا ناک کے بائیں نتھنے میں بالی، نتھ پہننا۔ ویسے زیورات پہننے کا رواج پتھروں کے دور سے ہے۔ لیکن زرا سوچیے کہ عورت کے بائیں نتھنے ہی میں کیوں؟ دائیں میں کیوں نہیں۔ اس کے پس پردہ علم النفس (سُوار شاستر) کا مفید مشورہ شامل ہے، یا بعد میں شامل ہوگیا۔ یہ نسوانی نظام کو کسی حد تک درست رکھنے میں مددگار ہے (لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جس شادی شدہ عورت نے نتھ nose-pin نہیں پہنی وہ بیمار پڑ جائے گی)۔ بعض ہندوستانی خواتین روایتی طور پر پیر کے انگوٹھے کے برابر والی انگلی میں انگوٹھی پہنتی ہیں۔ آیوروید کے نکتہ نظر سے اسکا بلاواسطہ تعلق حمل اور نسوانی امور سے ہے۔ اسی طرح کھانے کے فوری بعد نہانے یا شیو بنانے سے اجتناب کرنا صحت کے نکتہ نظر سے اچھی احتیاط ہے۔

اُپائے کے علاوہ کئی شگن (omens) پرانے طرزِ زندگی کی مشکلات کے عکاس ہیں۔ قدیم زمانے دودھ اُبل کر مٹی کے چولھے پر گِر جائے تو نحس سمجھا جاتا تھا۔ کیوں؟ کیونکہ پرانے وقتوں میں باربار آگ جلانا ویسا آسان نہیں تھا، جیسا آجکل ہے۔ دودھ سے چولھا بجھ جائے تو گیلے کوئلے اور لکڑیاں دوبارہ جلانا بہت دشوار ہے۔ آج کل تو سب کے گھر جدید اوون، گیس کے چولھے اور لائٹر ہیں۔ لیکن پرانے زمانے کے دیہاتی گھروں میں پتھر رگڑ یا لکڑی رگڑ کر آگ جلائی جاتی تھی۔

سخت سردی میں گھر سے باہر نکلتے وقت سر، کان اور ناک پر کپڑا لپیٹ لیا جاتا تھا۔ آج بھی پہاڑی اور قبائلی علاقوں میں یہی رواج ہے۔ سخت ٹھنڈ میں دیہاتیوں اور قبائلیوں نے سوئٹر جیکٹ پہنا ہو یا نہ پہنا ہو۔ لیکن ان کے سر، کان ناک ڈھکے ضرور ہوں گے۔ یہ طریقہ قدیم طبی مشاہدات پر مبنی ہے۔ اس اُپائے (تدبیر) سے کس کو انکار ہوسکتا ہے۔ اسی طرح صبح کی مشقت، شام کی محفل، خوراک میں مصالحہ جات، پیاز، لہسن ادرک کا استعمال، مہندی لگانا، پان کھانا، مٹی کی ہانڈی، تانبے کا گلاس، سوتی زیریں جامہ وغیرہ بظاہر روایت کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر ان سب کے اپنے طبی فوائد بھی ہیں۔ تاہم یہ تدبیریں، ترجیحات اور احتیاطیں ہیں؛ کسی بیماری کا مکمل علاج نہیں۔ اگر آپ خدانخواستہ کسی بیماری کا شکار ہوں تو مستند ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

کچھ اُپائے ایسے ہیں، جو قدیم نفسیاتی علاج سے اخذ کردہ ہیں۔ جیسے موسیقیت پر مبنی آہنگ، سماع، رنگ و نور کا اثر، ورد یعنی کسی نام کو باربار دہرانے کا اثر، تنہائی اور محفل کا اثر، اچھی بری صحبت کا اثر وغیرہ۔ اسی طرح شادی اور تدفین سے متعلق بہت سی مقامی رسومات کے پس پردہ قدیم نفسیاتی مشاہدات اور تدابیر پوشیدہ ہیں۔ لیکن اس حوالے سے کسی تجربہ کار ماہرِ نفسیات (psychologist) رجوع کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

کچھ اُپائے ایسے ہیں جو زمین اور انسان کے تعلق پر مبنی ہیں۔ یہاں زمین سے مراد مقامِ رہائش، دفتر یا کاروباری جگہ ہے۔ ظاہر ہے انسان جس جگہ زندگی گزارتا ہے اس سے متاثر ہوتا ہے، اور اُس جگہ کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اسے علم الکون یا علم تعمیر (واستو) کہتے ہیں۔ اس علم کے اصول آفاقی سے زیادہ مقامی ہیں۔ اسی وجہ سے آپ کو ہندوستانی “واستو” (Vastu)، اور چینی “فینگ شوئی” (Feng_Shui) کے اصول متصاد لگیں گے۔

اہلِ ہند، مشرق (east) کی سمت کو طلوعِ آفتاب کی وجہ سے مقدس جانتے ہیں۔ پرانے زمانے میں اکثر گھروں کے دروازے مشرق کی سمت کھلتے تھے۔ تاکہ صبح کی دھوپ جراثیم کش کا کام کرے اور دُھلے کپڑے بھی جلد سوکھ جائیں۔ اس کے علاوہ قدیم ہندوستان میں شمال (north) کے رُخ کو متبرک جانا جاتا تھا۔ کیونکہ ہمالے کا مقدس پہاڑ اور گنگا ندی دونوں ہندوستان کے شمال میں واقع ہیں۔ جنھیں جغرافیے اور نقشوں سے آگہی ہے وہ یہ بات بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس قدیم ایران میں شمال کو نحس تصور کیا جاتا تھا۔ کیونکہ ایران کی جغرافیائی حقیقت اور صنمیاتی فکر، ہندوستان سے مختلف رہی ہے۔ کراچی میں مکان خریدتے، بیچتے یا کرائے پر لیتے ہوئے “ویسٹ اوپن” کی اصطلاح عام ہے۔ اس شہر میں ویسٹ اوپن پراپرٹی کی قیمت قدرے زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ یہاں ہوائیں مغرب سے چلتی ہیں۔ گنجان آبادی والے اس شہر میں ہوا، دھوپ سے زیادہ اہم سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے کراچی میں مغرب (west) کے رُخ کی اپنی روایت قائم ہوگئی۔

آج کل سب سے مشہور و معروف اُپائے پتھر (gemstone) ہے۔ اسے ‘لکی اسٹون’ یا ‘مبارک پتھر’ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ لکی اسٹون بتانے والے دعوے دار اپنے نام کے آگے gemologist لکھتے ہیں۔ اسے اردو میں ماہرِ حجریات اور فارسی میں گوہر شناس کہتے ہیں۔ یہ ہنر دراصل علم ارضیات (geology) کی ذیلی شاخ ہے۔ جیولوجی اور mineralogy کو سائنسی بنیادوں پر یونیورسٹی میں پڑھایا جاتا ہے۔ جن نوجوانوں نے یونیورسٹی سے جیولوجی کی ڈگری لی ہے، وہ بے چارے روتے ہیں کہ ان کے مضمون کو نام نہاد نجومیوں نے بدنام کررکھا ہے۔ دنیا بھر میں gemologist سے مراد جوہرشناسی اور کان کنی (mineralogy) کی صنعت سے وابستہ سائنسی ماہر ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں gemologist وہ شخص ہوتا ہے جو آپ کا نام اور ماں کا نام پوچھ کر ‘لکی اسٹون’ بتاتا ہے۔ اور اسے ہر مسئلے کا فوری حل قرار دیتا ہے۔ حجریات (رتن شاستر) بہت قدیم سائنسی علم ہے۔ اس علم پر الکندی، البیرونی، اور ابن الاكفانی کی مایہ ناز کتب موجود ہیں۔ سنسکرت، عربی اور لاطینی کی قدیم کتب میں پتھروں کا تذکرہ ارضیات، کشتہ سازی، کیمیاگری، طبی فوائد، جوہر شناسی، جانچ اور تخمین کے حوالے سے موجود ہے۔ ان کتب میں پتھروں کو بروج اور ستاروں کے حوالے سے پہننے کے احکامات نہیں۔

ایسا نہیں کہ نجوم میں قیمتی پتھروں کو سیارگان سے نسبت نہیں دی گئی۔بالکل دی گئی ہے (اس کی وجہ میں اوپر کے پیراگراف میں بیان کرچکا ہوں)۔ نجوم میں جیسے انسانی رشتوں، پیشوں، جہتوں، مقامات، دھاتوں، پودوں، جانوروں، وغیرہ کو سیارگان سے منسوب کیا گیا ہے۔ ویسے ہی نو رتن (یعنی نو قیمتی پتھروں) کو 9 سیارگان سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہاں ایک اور فرق ملحوظِ خاطر رہے۔ روایتی ہندی نجوم (جیوتش) میں 12 بروج کو 12 پتھروں سے منسوب نہیں کیا گیا۔ یہ جدید مغربی نجوم (ویسٹرن آسٹرولوجی) کی اُپچ ہے۔ لیکن آج کل سب اسی راہ پر گامزن ہیں۔ جس طرح دیگر اشیا کے انفرادی خواص ہوتے ہیں، ویسے پتھروں کے بھی اپنے خواص ہوتے ہیں۔ تاہم یہ اثرات بہت خفیف ہوتے ہیں۔ اور اکثر آہستہ آہستہ بذریعہ تبدیلیِ نفسیات، اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہ اثرات اتنے قوی اور اتنے اہم نہیں کہ انھیں انسانی عقل، ہنر، ہمت اور کوشش کا متبادل (alternate) سمجھ لیا جائے۔ اگر پتھر، قسمت بدلنے کے خواص رکھتے تو پتھر بیچنے والے خود دنیا کے سب سے زیادہ خوشحال اور خوش قسمت انسان ہوتے۔

اُپائے کیسے کام کرتے ہیں؟

بیشتر اعمال اور افعال کے پس پردہ انسانی سوچ اور نفسیات کارفرما ہوتی ہے۔ اس لیے ہم جو کچھ کرتے ہیں اس میں تبدیلی ممکن ہے بشرطیکہ فکر کا ڈھانچہ اور سوچ کا طریقہ بدلا جائے۔ سوچ کی یہ تبدیلی، ارادے کی بنیاد پر شعوری طور پر بھی کی جاسکتی ہے۔ جس کے اثرات قوی اور فعال (major_&_active) ہوتے ہیں۔ سوچ کی تبدیلی کا دوسرا ذریعہ بیرونی سہارے کے بل بوتے پر ہے۔ یہاں سہارے سے مراد ٹوٹکے اور اُپائے ہیں۔ اس کے اثرات خفیف اور مجہول (minor_&_passive) ہوتے ہیں۔  یعنی یہ آہستہ آہستہ لطیف انداز میں انسانی نفسیات پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اگر کوئی انسان فطری طور پر زیادہ حساس واقع ہوا ہے تو شاید اُپائے کا نفسیاتی اثر قدرے جلد ہوجائے۔

اصولاً اثر اسی شے یا فرد پر ممکن ہے جو بیرونی اثر قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جذب کی اس نسائی صلاحیت کو آپ Yin  کہہ سکتے ہیں۔ دوسری جانب وہ افراد جو خود دوسروں پر اثرانداز ہونے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں، انھیں آپ Yang میں شمار کرسکتے ہیں۔ یہ تقسیم صرف بات سمجھانے کی غرض سے ہے۔

۔۔۔ مثبت Yang: مضبوط اور پراعتماد انسان

۔۔۔ منفی Yang: بے حس موٹی چمڑی والے انسان

۔۔۔ مثبت Yin: حساس اور نازک طبع انسان

۔۔۔ منفی Yin: کمزور اعصاب کے وہمی انسان

عوامی رہنما، کھلاڑی، جاں باز فوجی، دنیا کھوجنے والے، دوسروں کو راستہ دکھانے والے، رِسک لینے والے، کامیاب کاروباری، ہوشیار دنیادار، میرِ مجلس، خاندان کے بڑے عموماً Yang کی مثبت خصوصیات رکھتے ہیں۔ ایسے پراعتماد افراد ہمتِ مرداں مددِ خدا کے قائل ہوتے ہیں۔ اس لیے انھیں تدابیر اور اُپائے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ تآنکہ بڑھاپے کی دہلیز پر انھیں گمنامی، یا پہ در پہ ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اسی Yang کی ایک منفی صورت بھی ہے۔ وہ افراد جن پر گردوپیش کے سردگرم، سیاہ سفید، اچھے برے کا اثر نہیں ہوتا۔ مثلاً سخت جسمانی مشقت کرنے والے، لڑاکا فطرت، زورآور قسم کے بدمعاش، مُشٹنڈے، قصائی، پولیس اہلکار، دادا گیر، قبضہ گیر، ڈاکو وغیرہ Yang کی منفی خصوصیات رکھتے ہیں۔ ایسے افراد اندر سے خوفزدہ اور توہم پرست ہوتے ہیں۔ لیکن ان موٹی چمڑی اور موٹے دماغ والوں پر شاید ہی کوئی اُپائے اپنا لطیف اثر قائم کرسکے۔

دوسری جانب شاعر، ادیب، مصور، فنکار، گلوکار، پڑھنے لکھنے والے افراد، دفتری ملازمین، طلبہ، گھریلو خواتین Yin کی مثبت خصوصیات کی مثال ہیں۔ ایسے لوگ حساس طبیعت کی ضرور مالک ہوتے ہیں، لیکن مذہب کے خوف، روایات کی پاسداری، اور اپنی سماجی حیثیت کے باعث توہم پرستی سے بظاہر کنارہ کش رہتے ہیں۔ لیکن حسبِ ضرورت چھپ چھپا کر تدابیر، اُپائے اور وظائف پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ کہیں کام بن گیا، اور کہیں نہیں بنا۔

اسی Yin کے منفی خصائص کے حامل انسان ہوتے بھی ہیں۔ جیسے وہمی، خبطی، تنہا، طویل عرصے کنوارے یا خاندان سے دور رہنے والے، گھریلو چپقلش کا شکار خواتین، طویل عرضے بے روزگار رہنے والے حضرات، تنگ و تاریک ماحول میں رہنے والے، منفی اندازِ فکر کے حامل، اپنی قسمت کا رونا رونے والے Yin کی منفی خصوصیات رکھتے ہیں۔ ایسے لاچار افراد ہر وقت کسی نہ کسی کرشماتی پتھر اور جادوئی وظیفے کے منتظر رہتے ہیں۔ اور یہی بے چارے جعلی پیروں اور عاملوں کے ہاتھوں دھوکا کھاتے ہیں۔

تقدیر اور تدبیر

یہ کافی مشکل موضوع ہے۔ اس متعلق فکری اُلجھن عام ہے کیونکہ بیشتر افراد جبر (fate) اور قدر (freewill)، یا تقدیر اور تدبیر کا موازنہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ میری رائے میں انسان، مختار بھی ہے اور محتاج بھی۔ زندگی کے کئی معاملات میں انسان کی ایک نہیں چلتی۔ اور کئی معاملات میں وہ اپنے آپ کو کافی آزاد اور خودمختار پاتا ہے۔ جبر اور قدر کا معیار اور مقدار ہر انسان کے لیے مختلف ہے۔ انسانوں کو عطا کردہ صلاحیتں اور نعمتیں الگ الگ ہیں۔ اس لیے آزمائش کے میدان بھی الگ ہیں۔ چاہے وہ امیر ہو یا غریب، بادشاہ ہو بھکاری۔

کسی کو دولت کا سکھ ہے تو بیماری کا دکھ ہے۔ کسی کو شہرت ملی ہوئی ہے تو اولاد کا غم ہے۔ کسی کو اولاد کا سکھ ہے، تو پیسے کی تنگی ہے۔ کسی کی اولاد تعلیم یافتہ ہے تو ان کی شادی کا مسئلہ ہے۔ کسی کے پاس اچھا جیون ساتھی ہے، لیکن سسرالیوں کے باعث اذیت میں ہے۔ کسی کے پاس اچھی نوکری ہے، لیکن اپنا مکان نہیں۔ اور جس کے پاس مکان جائیداد ہے اس کا کاروبار نہیں چل رہا۔ اگر کاروبار ہے تو قرض داروں سے تنگ ہے۔ غرض جتنے انسان ہیں، اتنے سکھ اور دکھ ہیں۔

اگر آپ انسانوں کی زندگی کا غیرجانبداری سے جائزہ لیں تو تین قسم کی صورتحال پائیں گے۔ یہ قضاء یا تقدیر کی تین صورتیں ہیں۔

اول۔ تقدیر مُبرم (Fixed/Fated_Destiny)

دوم۔ تقدیر مشابہ مُبرم (Conditional_Destiny)

سوم۔ تقدیر معلق (Changeable_Destiny_or_Freewill)

“تقدیر مُبرم” سے مراد وہ تمام واقعات ہیں جس میں آپ کا بظاہر نہ تو کوئی قصور ہے اور نہ کمال ہے۔ اس کے برخلاف آپ جتنی چاہے کوشش کرلیں۔ اگر اسے ہونا ہے تو وہ ہو کر رہے گی، اور نہیں ہونا تو دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں بدل سکتی۔ آپ چاہے دعا کریں یا دوا کریں۔ احتیاط کریں یا زور لگائیں۔ تقدیر مبرم کو نہ تو ٹالا جاسکتا ہے اور نہ بدلا جاسکتا۔ واضح رہے کہ تقدیر مُبرم، اتفاقی خوش قسمتی کی شکل میں بھی ممکن ہے، اور بے وجہ ناکامی اور لاچاری کی صورت میں بھی ممکن ہے۔ بن مانگے ملیں موتی، مانگے ملے نہ بھیک۔

“تقدیر مُشابہ مُبرم” کا مطلب ہے کسی حد تک مشروط یا ملاجُلا معاملہ۔ ایسے مقاصد جن کے حصول کے لیے عام حالات سے کچھ زیادہ دوڑ دھوپ، انتظار اور دوا-دعا کی ضرورت پڑے، وہ تقدیر مُشابہ مُبرم کے زمرے میں آتے ہیں۔ “اپنا کنواں خود کھودو” پھر ملے گا پانی، کے مصداق۔

جبکہ “تقدیر معلق” سے مراد وہ امور ہیں جو ابھی متعین نہیں ہوئے۔ ان کا انحصار انسان کے اختیار میں ہے۔ چاہے تو پائے، نہ چاہے تو چھوڑ دے۔ مثال کے طور پر آپ ایک پھل دار درخت کے نیچے بیٹھے ہوں۔ اگر چاہیں تو پھل توڑ کر کھالیں۔ نہ کھانا چاہیں تو آپ کی رضا۔ لیکن پھل، خود بخود درخت سے گر کر آپ کے منہ میں نہیں جائے گا۔

مختصراً کہا جائے تو تقدیر مُبرم سے متعلق معاملات میں اُپائے اور تدابیر سے کسی قسم کی کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ جبکہ “تقدیر معلق” سے منسلک امور کے لیے کسی خاص اُپائے اور تدابیر کی ضرورت نہیں۔ تاہم “تقدیر مشابہ مُبرم” وہ صورت ہے، جہاں کسی حد تک اُپائے اور تدابیر مددگار ہوسکتی ہیں۔ یاد رہے کہ اُپائے، ٹونے ٹوٹکوں اور تدبیروں کی حیثیث ضمنی معاون کی طرح ہے۔ جو آہستہ آہستہ نفسی یا طبی طور پر اثرانداز ہوکر آپ کی سوچ کو بدلتے ہیں۔ انسانی سوچ، اس کے عمل (ایکشن) پر اثر ڈالتی ہے۔ لیکن اگر عمل (یعنی ہمت، کوشش، محنت) ہی موجود نہ ہو تن تنہا اُپائے کسی کام کے نہیں۔

* * *  واللہ اعلم بالصواب  * * *

2 تبصرے

  1. واہ عمران بھائی بہت اعلیٰ عمدہ اور اصل حقائق پر مبنی حاصل علم تحریر ہے ۔ بہت خوب

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں