نجوم کیا نہیں ہے؟

2
828
what astrology is not

پاکستان میں آسٹرولوجی اور دیگر علوم، عقائد اور اوہام میں زیادہ فرق نہیں کیا جاتا۔ انھیں آپس میں گڈمڈ کردینا ایک عام رویہ ہے۔ اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ آسٹرولوجی کیا نہیں ہے۔

نجوم — کسی عقیدہ یا مذہب کا نام نہیں۔ اگرچہ مذاہبِ عالم کی کتابوں میں جا بجا مشاہدہ ٔفلک کی جانب توجہ دلائی گئی ہے۔ طلوع وغروب کا بیان ہے۔ چاند تاروں کا ذکر ہے۔ مقدس ایام اور ماہ و سال کےحوالے ہیں۔ اور بہت کچھ ہے ۔لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قران، بائبل، تلمود، رِگ وید، زنداوستھا، دھم پد،گروگرنتھ صاحب یا کسی اور مذہبی صحیفہ کو نجوم کی کتاب قرار دے دیا جائے۔یا یہ ثابت کیا جائے کہ مذہبی کتب بنیادی طور پر نجوم کی تعلیم اور ترغیب کےلیے ہیں۔
مذہبی صحائف درحقیقت انسانی ہدایت کے لیے ہیں۔ میری نظر میں مذہبی کتابوں سے نجوم کی تائید یا تردید کے حوالے کھوجنے کے بجائے اپنا وقت اور توانائی نجوم سیکھنے پر سرف کرنا بہتر ہے۔ تائید اور تردید کا جوکھم متشکک سائنسدانوں اور مفتیوں پر چھوڑ دیجیے۔ نجوم کسی مذہب کا نام نہیں، جس پر آنکھ بند کر کے ایمان لایا جائے۔ جہاں کہیں مقدس کتابوں میں مظاہرِ نجوم کے حوالے ہیں، وہ انسانوں کو غور و فکر کی جانب رغبت دلانے کے لیے ہیں۔ اور جہاں کہیں کاہنوں، جادوگروں، فال گیروں، شعبدہ بازوں کے کاموں کو غلط کہا گیا ہے اس کا مقصد عوام الناس کو توہم پرستی اور ضیعف العقادی سےدور رکھنا ہے۔

نجوم— کسی سائنس کانام نہیں۔ اگرچہ آسٹرولوجی کا ایک حصہ ریاضیاتی سائنس اور آسٹرونومی پر ضرور مبنی ہے۔ یعنی سیارگان کی پوزیشن معلوم کرنے اور زائچہ بنانے کی حد تک۔ لیکن علم نجوم (آسٹرولوجی) کو مکمل طور پر سائنس کہنا درست نہیں۔ اس کے باوجود بہت سے خوش فہم نجومی، آسٹرولوجی کو سائنس ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سائنس کی جدید تعریف (ڈیفی نیشن)، سائنس کے طریقہ کار (میتھڈلوجی) اور سائنس کے دائرہ کار (اسکوپ) کا مطالعہ کرنا چاہے۔
دراصل چند صدیوں پہلے تک علم نجوم (آسٹرولوجی) اور علم ہئیت و فلکیات (آسٹرونومی) میں زیادہ فرق نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن جدید سائنس نے جب اپنے لیے واضح کسوٹی طے کی تو نجوم اور اس جیسے دیگر پیشگوئی کے طریقوں کو غیر سائنسی قرار دے دیا۔ آج کے سائنسدان اور متشکک (اسکیپٹک)، نجوم اور فلکی اثرات کو جعلی علم (سوڈوسائنس) گردانتے ہیں۔ خیر یہ ان کی اپنی رائے ہے۔ رائے سے اتفاق یا اختلاف کیا جاسکتا ہے۔
ویسے سائنس اپنے طور پر علمِ کل نہیں اور نہ ہی سائنس کا یہ دعویٰ ہے۔اس لیے سائنس، ہر علم کے صحیح و غلط کا پیمانہ نہیں۔ نئے نظریات اور نئی دریافتوں کے ساتھ سائنس اپنے آپ کو خود بدلتی رہتی ہے، اَپ ڈیٹ کرتی رہتی ہے۔ غور کیجیے انسانی زندگی میں بے شمار امور ایسے ہیں جنھیں سائنس سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن وہ اہم ہیں، اور ہمارے روز و شب ناگزیر حصہ ہیں۔ اس لیے آسٹرولوجی کا جو ریاضیاتی حصہ سائنس ہے، اسے سائنس مانا جائے۔ اور جو حصہ غیر سائنسی حصہ ہے، اسے زبردستی سائنس نہ بنایا جائے۔

نجوم — کسی ماورائی یا خفیہ علم کا نام نہیں۔ اور نہ ہی یہ کوئی تعویز، طلسم، نقش یا جادوٹونا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عاملین اور خفیہ علم کے ماہرین، نجوم کے چند عام طریقے استعمال میں لاتے ہیں۔ میں عملیات کے خلاف نہیں۔ لیکن اس کا دائرہ کار اور طریقہ کار علیحدہ ہے۔ ایک عامل کو اپنا تعارف عامل کے طور پر کرانا چاہیے، آسٹرولوجر کے طور پر نہیں۔ نجوم کو عملیات کی ضرورت نہیں۔ لیکن عملیات، بہت حد تک نجوم کا محتاج ہے۔ عاملین کے صحیح یا غلط طریقۂ استعمال سے نجوم اکثر ہدفِ تنقید بنتا ہے۔ عاملوں کی دکانوں اور اشتہاروں میں اکثر دائرۃ البروج (زوڈیئک سائن) کی تصویریں اور علامتیں نظر آتیں ہیں۔ لیکن بیشتر عاملین، نجوم کی الف بے سے واقف نہیں ہوتے۔ بہت ہوا تو حالیہ برس کی جنتری ان کی ٹیبل کی دراز سے نکلے گی۔ جس میں شرف کی لوحیں اور گرہن کے نقوش بنانے کے اوقات تحریر ہوتے ہیں۔ یہی کچھ معاملہ ان لوگوں کا ہے جو پیسے کے عوض استخارہ نکالتے ہیں۔ استخارہ اپنے طور پر ایک جداگانہ معاملہ ہے، اور اسکی روحانی اہمیت مسلّم ہے۔ آن لائن استخارہ ایکسپرٹ کے دعوے داروں کی کرسیوں کے پس منظر میں نجوم کی علامتیں اور بروج کے عکس، عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ استخارے کا آسٹرولوجی سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں۔ آسٹرولوجی کے اصول سیکھنے کے لیے کسی الہامی طاقت یا کشف کی ضرورت نہیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ جعلی گرو اور جو نما گندم فروش ہر جگہ اور ہر زمانے میں رہے ہیں۔

نجوم— دست شناسی یا پامسٹری نہیں۔ اگرچہ دونوں علوم پیش گوئی کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اور دونوں جگہ کچھ اصطلاحات ایک جیسی ہیں، اس کے باجود آسٹرولوجی اور پامسٹری علیحدہ علیحدہ علوم ہیں۔ پامسٹری کا میدان کار انسانی ہاتھ ہے۔ جبکہ نجوم کی بنیاد آسمان پر موجود سورج، چاند، سیارے اور بروج ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان میں رائج قدیم فن دست شناسی (ہست سامدرک شاستر) اور ہندی نجوم (جیوتش شاستر) میں لطیف ربط پایا جاتا ہے۔ وہاں چند ایسے ماہر بھی گزرے ہیں جو ہاتھوں کی لکیروں سے زائچہ پیدایش میں موجود سیاروں کی نشست، یوگ، نظرات اور طالع اخذ کرسکتے تھے۔ بیسوی صدی میں ایسے ماہرین کو آسٹروپامسٹ کا نام دیا گیا۔ جنوبی ہندوستان میں موجود چند ناڑی مراکز بھی ہاتھ کے انگوٹھے پر موجود نقوش سے جنم لگن کی تصحیح اور تصدیق کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پامسٹری اور آسٹرولوجی کے درمیان اس تعلق کے باوجود دونوں جداگانہ علوم ہیں۔ انھیں آپس میں گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔

نجوم — علم الاعداد نہیں۔ علم الاعداد یا نمرولوجی اپنے طور پرایک علیحدہ علم ہے، جس کی بنیاد ریاضی کے ہندسے ہیں۔ کائنات میں ہندسوں کے باہمی آہنگ اور تعلق سے کسی کو انکار نہیں۔ لیکن نمرولوجی اور آسٹرولوجی دو الگ الگ کشتیوں کے سوار ہیں۔ علم الاعداد کے لیے فرد کا نام اور انگلش (گریگورین) کلینڈر کے مطابق تاریخ پیدائش سے بنیادی اعداد اخذ کیے جاتے ہیں۔ بہت کم لوگوں کو علم ہو کہ چند صدیوں پہلے تک موجودہ انگلش (گریگورین) کلینڈر کا چلن نہیں تھا۔
نمرولوجی کی آفاقیت کو گہنانے والا دوسرا معاملہ آفاقی ابجد کی عدم دستیابی ہے۔ اس لیے جو نام جس زبان یا کلچر سے تعلق رکھتا ہو اس کے لیے اُسی زبان کی ابجد (ایلفابیٹ) استعمال کی جاتی ہے۔ کسی ہندو یا چینی شخص کے نام کے لیے مسلمانوں میں رائج ابجدِ قمری کام نہیں دیتی۔ اسی طرح عربی نام کے لیے لاطینی یا یونانی زبان کی ابجد کا انتخاب مناسب نہیں رہتا۔ آج کل سبھی نے انگریزی زبان کے 26 حروف پر مبنی جدید ابجد اپنائی ہوئی۔ لیکن صرف دو تین سو برس پہلے تک انگریزی حروف کی کل تعداد آجکل کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ اور ان کی ترتیب بھی مختلف تھی۔
نجوم کو علم الاعداد سے گڈ مڈ کردینا حالیہ دور کا بگاڑ ہے۔ علم نجوم کی قدیم اور مستند کتب میں علم الاعداد کا خال ہی ذکر ہو (چاہے وہ کتب سنسکرت میں ہوں یا عربی میں، یونانی میں ہوں یا عبرانی میں)۔ موجودہ ماہرینِ علم الاعداد، ریاضی کے ہندسوں کو سیاروں سے منسوب کرتے ہیں۔ لیکن پرانے وقتوں میں یہ رواج نہیں تھا۔ موجودہ دور میں زبردستی اس تعلق کو جوڑا جاتا ہے اور ہر برج کےساتھ لکی نمبر کا ٹانکا لگا نظر آتا ہے۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ شمسی برج کی بنیاد پر لکی نمبر کاسطحی مشورہ اکثر صورتوں میں گمراہ کن ثابت ہوتا ہے۔

خلاصہ :
نجوم — مذہب نہیں، عقیدہ نہیں، الہام نہیں، سائنس نہیں۔ بلکہ خود شناسی اور وقت شناسی کا ایک قدیم فن ہے۔ نجوم نہ تو عملیات ہے نہ نقش و طلسم ہے۔ نہ یہ لکی اسٹون ہے اور نہ لکی نمبر۔ نجوم کے علاوہ دیگر پیشگوئی کے علوم مثلاً دست شناسی، علم الاعداد، ٹیروکارڈ ریڈنگ، فال گیری وغیرہ اپنی جداگانہ بنیادیں رکھتے ہیں۔ چند تجربہ کار ماہرین ایک سے زائد علوم میں مہارت رکھتے ہیں لیکن انھیں آپس میں غلط ملط نہیں کرتے، ان کا اچار کچومر نہیں بناتے۔ آپ ان دیگر علوم کے محتاج ہوئے بغیر بھی عام طالبعلم کی طرح آسٹرولوجی سیکھ سکتے ہیں اور سکھا سکتے ہیں۔ نجوم کا استعمال کئی شعبوں، بشمول طب، حجر شناسی، ادویہ سازی، آیوروید، تنتر اور اُپائے شاستر میں بھی ہوتا ہے۔ یعنی دیگر علوم، آسٹرولوجی کے محتاج ہیں۔ لیکن آسٹرولوجی کی اپنی آزاد حیثیت، مستحکم بنیاد اور منفرد پہچان ہے۔

2 تبصرے

  1. اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    بھائی بالکل بہت ہی اعلی مضمون آپ نے تحریر فرمایا آرہا ورنہ ہم جیسے طالب علم واقع ہیں گٹھ مٹ کا شکار ہے

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں