نجوم کی تاریخ کا جائزہ

0
993

علم نجوم کب اور کیسے وجود میں آیا؟ اس پر کوئی حتمی علمی رائے یا قطعی تاریخی حوالے موجود نہیں۔ قدیم نجوم کے تانے بانے تقویم سازی (calendaring)، موسمیات (meteorology)، کہانت (priesthood) اور شگون (omenology) سے جا ملتے ہیں۔ یہ تمام امور تاریخ کے دبیز کہر میں دھندلائے ہوئے ہیں۔ اور بہت حد تک آپس میں گڈمڈ ہیں۔

یہاں ایک بنیادی فرق پیش نظر رہے کہ نجوم (Astrology) اور زائچہ جاتی نجوم (Horoscopic Astrology) میں فرق ہے۔ فی زمانہ جس آسٹرولوجی کو ہم آپ جانتے ہیں وہ زائچہ جاتی نجوم یعنی ہورواسکوپک آسٹرولوجی ہے۔ جس میں نہ صرف چاند سورج بلکہ باقی سیارگان کو طالع کی نسبت بارہ بروج اور بارہ گھروں میں دیکھا جاتا ہے۔ جدید رياضی کے بغیر یہ سب سہولتیں قدیم ماہرین نجوم کو میسر نہ تھیں۔ویسے نجوم کی ابتدا سے قبل، ایک فطری سالانہ تبدیلی کا علم قدیم انسانوں کو ضرور تھا۔ وہ موسم کی تبدیلی کا علم تھا۔ موسم کی تبدیلی کا سورج کی گردش سے براہِ راست تعلق ہے۔ بہار، گرمی، خزاں اور سردی کا موسم کم و بیش ہر خطے میں ہر سال آتا ہے۔ بعض تہذیبوں پر صرف دو موسم، اور بعض تہذبوں میں چھ موسم گنے جاتے تھے۔ تاہم ہر موسم ہر برس اپنے آپ کو دوہراتا ہے۔ گرمی اور سردی میں دن رات کی طوالت اور سورج کے طلوع غروب میں واضح فرق ہوتا ہے۔ یہ بات قدیم شکاری بھی جانتا تھا اور کسان بھی۔ آج بھی دنیا کے بیشتر دیہی ثقافتوں میں جو میلے رائج ہیں وہ موسمیاتی ہیں اور ان پر مقامی مذہب اور روایات کا ملمع چڑھا ہے۔

نجوم کی تاریخ کا جائزہ

قدیم انسان، تحریر کے آغاز سے قبل ہی سالانہ موسمی تبدیلی اور سورج کے متعلقہ مقامات سے آگاہ تھا۔ ان شمسی مقامات کو ہم آج کل اعتدالین (Equinoxes) اور انقلابین (Solstices) کہتے ہیں۔ قدیم رصدگاہوں کی ابتدائی عمارتیں، انھی مقاماتِ اعتدالین اور انقلابین کے درست حساب کتاب کے لیے بنائی گئی تھیں۔ جنوبی برطانیہ میں موجود اسٹون ہینج (Stonehenge) اس کی معروف مثال ہے۔ ایران اور وسطی ایشیا میں اعتدالین اور انقلابین سے آگہی کی ثقافتی تاریخ شاید اس سے بھی پرانی ہو۔ جس کی سب سے نمایاں مثال نوروز (New Year) کا قدیمی تہوار ہے، جو دراصل اعتدال ربیع (Spring Equinox) کا نقطہ آغاز ہے۔ جب سورج برج حمل میں تحویل کرتا ہے اور دن اور رات کا دورانیہ مساوی ہوجاتا ہے۔

انسانی تمدن کے ابتدائی دور میں ریاضی اور کروی مثلثات (spherical trigonometry) کا علم کافی محدود تھا۔ اس علم کے بغیر سیاروں کے مدار اور مقامات کو تخمین نہیں جاسکتا۔ اس لیے پرانے زمانے میں صرف چاند، سورج اور انسانی آنکھ سے دکھائی دینے والے بعض روشن سیاروں اور ستاروں کے طلوع غروب کا مشاہدہ ہی ممکن تھا۔ اسی بنیاد پر شگون نکالے جاتے تھے اور پیش گوئی کی جاتی تھی۔ آسمانی مشاہدے اور ان کے اندراج کا کام مندروں کے کاہن (Cohen or Kohen) یا مخ (Magi) سرانجام دیا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ لکھنا پڑھنا بھی جانتے تھے، اور حکمران طبقے کے لیے تعبیر رویا اور شگون کی پیش گوئی بھی کیا کرتے تھے۔ ویسے مخ یا مغو، قدیم پہلوی زبان کا لفظ ہے۔ اور کاہن، یہودیوں کی قدیم زبان عبرانی کا لفظ ہے۔موسمیاتی اندراج کے بعد، تقویم سازی (calendar making) کا رواج ہوا۔ جس کے ساتھ نجوم نے اپنے قدم جمائے۔ کیونکہ کلینڈر بنانے کے لیے شمس و قمر کی گردش کا احوال جاننا ضروری ہے۔ گردشِ قمر کے حوالے سے قدیم انسان نے آسمانی کو کئی حصوں میں تقسیم کیا۔ قدیم ہندوستانی ماہرین نے آسمانی طریق الشمس (ecliptic) کے 27 یا 28 حصے کیے، جنھیں نچھتر (Nakshatra) کا نام دیا گیا۔ نچھتر، چند ثوابت (fixed stars) پر مشتمل آسمانی ٹکڑے یا حصے کو کہتے ہیں۔ پرانے زمانے میں ان آسمانی حصوں کی طوالت یکساں نہیں مانی جاتی ہے۔ 27 نچھتروں کی مساویانہ طوالت 13 درجے 20 دقیقے کا رواج بعد میں ہوا۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ شمس کو نچھتروں کی نسبت نہیں دیکھا جاتا تھا۔ کیونکہ آپ دن کے وقت سورج کی تیز روشنی میں آسمان پر موجود ستاروں کو نہیں دیکھ سکتے۔ نچھتروں کا مشاہدہ صرف رات کے وقت ہی ممکن ہے جب مطلع ابرآلود نہ ہو۔ تاہم ریاضیاتی طور پر آپ ہر سیارے کی نچھتر پوزیشن نکال سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ آسمانی مشاہدے، اور ریاضیاتی تخمین، دو علیحدہ علیحدہ امور ہیں۔نجوم کی تاریخ کا جائزہ

قدیم زمانے میں کلینڈر نہ صرف آنے والے موسموں کی پیش گوئی کے لیے کارآمد تھے۔ بلکہ ان کا ایک اہم مقصد عبادات، حمدیہ منتروں کا ورد اور شاہی امور کی انجام دہی کے لیے سعد وقت کا تعین بھی ہوا کرتا تھا۔ ہندوستانی نجوم کی سب سے پرانی کتاب ”ویدانگ جیوتش“ میں صرف شمس و قمر کی تخمین کا حوالہ درج ہے جو صرف پنجانگ تک محدود ہے۔ تاکہ ویدوں میں ہدایت کردہ آگ کی پوجا اور ہون کے لیے سعد وقت کا تعین کیا جاسکے۔ یہ کتاب ویدوں کا حصہ نہیں بلکہ بعد میں منسلک ہونے والا ایک ضمنی جز ہے۔ اس کے علاوہ ویدوں میں کسی قسم کا زائچہ جاتی نجوم (Horoscopic Astrology) موجود نہیں۔ ہندوستانی نجوم کا فروغ قدرے بعد میں ہوا۔

آشوری اور بابلی نجوم کے ابتدائی دور میں 30 درجے کے 12 مساوی بروج کا تصور نہ تھا۔ ان کے ہاں 12 کے بجائے 18 بروج کا قاعدہ رائج تھا۔ اگرچہ ان کا حساب کتاب ثوابتی (Sidereal) تھا، تاہم ان 18 بابلی بروج کی طوالت مساوی نہیں تھی۔ آشوری اور بابلی ماہرین کے نزدیک جو بروج زیادہ طویل تھے، یا جن میں زیادہ روشن ستارے تھے، انھیں ایک سے زائد حصوں میں بانٹا گیا ہے۔ جیسے برج ثور جس کے آس پاس کافی روشن ستارے ہیں، اور برج حوت اور سنبلہ جو کافی طویل ہیں۔ آشوری اور بابلی دائرۃ البروج کی ابتدا جس مقام سے ہوتی تھی، اسے ہندوستانی نجوم میں کرتکا نچھتر (Sidereal Aries and Taurus) کہتے ہیں، جس کا حاکم کوکب سورج مانا جاتا ہے۔ کرتکا نچھتر میں موجود کرتکا تارا (Pleiades) کو مشرقِ وسطیٰ میں ثریا کہتے ہیں۔

حقیقتاً آسمان پر تمام بروج کا سماوی طول (longitude) برابر نہیں اور نہ ہی ہر ثوابتی برج (constellational sign) تیس درجے کا ہوتا ہے۔ ماہرینِ علم نجوم ہر برج کو 30 درجے کا تصور کرتے ہیں۔ اگرچہ فلکیاتی طور پر (astronomically) ایسا نہیں ہے۔ لیکن نجوم میں (astrologically) ایسا مانا جاتا ہے۔ اگر آسمان پر سورج کی گزرگاہ کو 12 مساوی حصوں میں بانٹا جائے تو 30 درجے کا ہر حصہ برج (sign) کہلاتا ہے۔ برج کو لاعلمی میں اسٹار (star) بھی کہا جاتا ہے، جو غلط چلن ہے۔ برج، دراصل آسمانی ٹکڑا ہے۔ جس کے پس منظر میں ہمیں چاند، سورج اور مختلف سیارے بظاہر گردش کرتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ موجودہ ہندی نجوم اور مغربی نجوم میں 12 بروج کا قاعدہ رائج ہے۔ تاہم تخمین کے لیے دونوں کی بنیاد جداگانہ ہے۔

آشوری اور بابلی تہذیب میں چاند اور سورج کے علاوہ کا جس کوکب کا سب سے زیادہ حوالہ موجود ہے وہ سیارہ زہرہ ہے۔ کیونکہ سیارہ زہرہ دیگر سیاروں کی نسبت زیادہ روشن ہے۔ اور دوربین کے بغیر اس کا آسمانی مشاہدہ قدرے آسان ہے۔ سیارہ زہرہ کے مشاہدہ کرتے کرتے قدیم آشوری اور بابلی ماہرین کو زہرہ کے مدار کا علم ہوا۔ اور وہ آیندہ کے لیے زہرہ کی بروجی پوزیشن تخمین کرنے کے قابل ہوگئے۔ خطِ میخی (cuneiform) میں لکھی بہت سے تختیاں (tablets) آج بھی برٹش میوزیم میں موجود ہیں۔ اس حوالے سے MUL.APIN کی میخی تختی معروف ہے جو ایک طرح کا جدول کواکب (star-catalogue) ہے۔ آشوری اور بابلی تختیوں پر دیگر سیاروں کا بھی خفیف ذکر ملتا ہے۔ قدیم زمانے میں نجوم کی یہ شکل صرف ریاست اور بادشاہ وقت کے لیے پیش گوئی کے کام آتی تھی۔ ہر عام شخص کے لیے زائچہ نہیں بنایا جاتا تھا۔ علمِ نجوم (چاہے وہ مصری ہو، ہندی ہو یا یونانی ہو) ان سب کے ہاں جو 12 بروج رائج ہیں۔ ان کا ماخذ آشوری اور بابلی 18 بروج ہیں۔ وہی نام، اور وہی جانوروں کی شبہیات اور وہ منسوبات۔ آشور اور بابل میں سال کو بارہ مہینوں میں اور دن کو چوبیس ساعتوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ تاہم ابتدائی دور میں آسمانی بروج کی تعداد بارہ نہ تھی۔ محققین کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں بارہ بروج کا رواج ممکنہ طور پر چھٹی صدی قبل مسیح سے شروع ہوا۔ جس کا مقصد شاید زمینی کلینڈر اور شگون کے لیے مستعمل آسمانی بروج میں ہم آہنگی پیدا کرنا تھا۔

history-of-astrology

آشوری اور بابلی زوال کے بعد یہ علم، مصر پہنچا۔ فرعونوں کے بعد کا وہ مصر جسے ہیلنستی مصر (Hellenistic Egypt) کہتے ہیں، جہاں یونانیوں کی بطلیموسی حکومت (Ptolemaic Kingdom) سن 323 قبل مسیح سے 30 قبل مسیح تک قائم تھی۔ مصری بطلیموسی ماہرین نے قدیم مصر، آشور، بابل اور کلدان کے علم نجوم اور تقویم سازی کو نئی جہت دی۔ ریاضی، مثلثات اور سیاروں کے دائرے کے نئے اصول وضع کیے گئے۔ اس دور میں جس نجوم نے فروغ پایا اسے آج کل کے محقیقن اور تاریخ دان، زائچہ جاتی نجوم (Horoscopic Astrology) کا نام دیتے ہیں۔

تاہم یہ بات حتمی طور پر معلوم نہیں کہ ہندوستان میں زائچہ جاتی نجوم کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی۔ امریکی محقق ڈیوڈ پنگری کے مطابق، ہندوستان نے زائچہ جاتی نجوم کو یونانیوں کی کتاب یونا جاتک (Yavana Jataka) کے توسط سے پایا۔ تاہم موجودہ ہندوستانی تاریخ دان اس دعوے کو شدت سے رد کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ یونا جاتک (Yavana Jataka) میں بہت کم یونانی نجوم ہے۔ پنگری کے سنسکرت ترجمے اور تفسیر کو میں نے سطر بہ سطر پڑھا ہے۔ حق بات یہ اس کے بیشتر اجزا خالصتاً ہندی نجوم (Indian Astrology) پر مشتمل ہیں۔ غالب گمان ہے کہ یونا جاتک کی تخلیق کا وقت دوسری یا تیسری صدی بعد از مسیح ہے۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سکندر اعظم کے حملے (325 قبل مسیح) کے بعد ہندوستانی اور یونانیوں میں علم و ثقافت کا تبادلہ ہوا۔ یونانیوں نے کئی ہندوستانی علوم اور اصول اپنائے۔ اور ہندوستان نے کئی یونانی اصطلاحات اور اصول قبول کیں۔ تاہم ہندوستان میں شمس و قمر کے مقامات سے آگہی اور آسمانی شگون کی تاریخ کافی قدیم ہے۔

history-of-astrology

چھٹی صدی عیسوی کے وراہا مہیر اچاریہ (VarhaMihira) سے قبل ہندوستانی حکمائے نجوم کے نام اور حوالے تو دستیاب ہیں، لیکن ان کی حتمی تاریخ معلوم نہیں اور نہ ہی اصل کتابی نسخہ موجود ہے۔ ہم یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ نارد، وشیشٹ، گرگاچاریہ، بھرگو، پاراشر، ستیاچاریہ وغیرہ کس صدی میں گزرے ۔

ایسا نہیں کہ جیوتش (یعنی ہندوستانی نجوم) قدیم نہیں، یا اس کی حیثیت کم تر ہے، یا وہ کارآمد نہیں۔ جیوتش کا دامن صدیوں کی تحقیق اور تحریر سے مذین ہے۔ گذشتہ دو ڈھائی ہزار برسوں کے دوران ہندوستان میں سیکڑوں مایہ ناز حکمائے نجوم، رِشی، مُنی اور اچاریہ گزرے ہیں۔ لیکن جیوتش کو الہامی، الوہی، ناقابلِ تردید، اولین اور قدیم ترین بناکر پیش کرنا تاریخ کے ساتھ انصاف نہ ہوگا۔

ہندوستانی نجوم میں گذشتہ چند عشروں کے دوران ایک نئی اصطلاح کا چلن عام ہوا ہے۔ وہ اصطلاح ”ویدک آسٹرولوجی“ (Vedic Astrology) ہے۔ پاکستان میں بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ ”ویدک آسٹرولوجی“ کی اصطلاح دراصل 1980 کے عشرے کی ایجاد ہے۔ اس سے قبل یہ ترکیب موجود نہ تھی۔ یعنی جیوتش تو ہزاروں برسوں سے موجود ہے، لیکن ”ویدک“ کا ٹانکا کافی نیا ہے۔ سن 80 کی دہائی سے پہلے بی۔وی۔رمن کے آسٹرولوجیکل میگزین میں عرصہ دراز تک ”ہندو آسٹرولوجی“ یا ”انڈین آسٹرولوجی“ کی ترکیب استعمال ہوتی رہی۔ بعد میں‌ انھوں ‌ نے بھی ویدک آسٹرولوجی کی ترکیب استعمال کرنا شروع کردی۔ انٹرنیٹ کے پھیلاؤ کے بعد سبھی ”ویدک آسٹرولوجی“ کی اصطلاح جانے انجانے استعمال کرنے لگے۔ تاہم ہندی پنجانگ اور رسائل میں ہمیشہ ”جیوتش“ کا قدیمی لفظ رائج رہا۔ جو درست بھی ہے اور زیادہ بامعنی بھی۔

آج کل جیوتش کا ماخذ ویدوں کو جتلایا جاتا ہے۔ جبکہ وید (باالخصوص رِگ وید) دیوتاؤں کی حمد و ثنا پر مشتمل منظوم مجموعہ ہے۔ آپ خود ویدوں کا مطالعہ کرلیجیے وہاں آپ کو کسی نوعیت کا کوئی عملی نجوم نہیں ملے گا۔ تاریخ دانوں کے مطابق وید پانچ ہزار برس پرانے نہیں۔ رِگ وید کی قدامت ممکنہ طور پر 1500 قبل مسیح عیسوی ہے۔ مہابھارت کی قدامت محض تیسری صدی قبلِ مسیح ہے۔جبکہ سنسکرت میں لکھی جیوتش کی بیشتر کتب (تمام نہیں، بیشتر کتب) چھٹی سے سولھویں صدی بعد از مسیح کے دوران وجود میں آئی ہیں۔ دیگر زبانوں کی طرح سنسکرت بھی فطری طور پر کئی ادوار سے گزری ہے۔ لیکن آج کا بھارتی یہ تاریخی حقیقت ماننے کے لیے تیار نہ ہوگا۔ اس کے نزدیک قدیمی، وسطی اور جدید سنسکرت ایک ہی ہے۔ تمام کا تمام جیوتش کم سے کم پانچ ہزار سال پرانا ہے۔ تاہم محققین کے نزدیک، یہ محض مبالغہ آرائی اور غیر حقیقی تاریخی دعوے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں