جیمنی جیوتش کا تعارف

An Introduction to Jaimini Astrology

0
762
Jaimini

جیوتش کا ایک خاص مکتبِ فکر “جیمنی” ہے، جس کے خالق ایک قدیم ماہر نجوم “جیمنی” تھے۔ دیگر طریقوں کے برعکس جیمنی جیوتش کے عناصر کافی مختلف اور تکنیکیں کافی مشکل ہیں۔ یہ اپنے طور پر کوئی مکمل نظامِ نجوم نہیں۔ بلکہ عام پاراشری جیوتش جاننے والوں کے لیے ایک منفرد اور متوازی پہلو پیش کرتا ہے۔ تاکہ زائچہ شناسی کے دوران اگر کہیں ابہام پیدا ہوجائے تو جیمنی جیوتش کی مدد سے یقینی نتائج تک پہنچا جاسکے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاراشری جیوتش کے اصولوں کو جیمنی جیوتش میں ضم سمجھا جائے۔ یہ دونوں مکاتبِ نجوم، جداگانہ حیثیت اور قدرے مختلف مقصدیت رکھتے ہیں۔

جیمنی سے منسوب کتاب کو “جیمنی سُوتر” (Jaimini_Sutra) کہا جاتا ہے۔ جیمنی سوتر اور جیمنی سوترم (Jaimini_Sutram) ایک ہی بات ہے۔ یہ اُپدیش سوترم (Updesa_Sutram) کے نام سے بھی معروف ہے۔ اسے سمجھنا آسان نہیں۔ کیونکہ اس کے مصنف جیمنی، اختصار پسند اور مشکل پسند واقع ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب “جیمنی سوتر” سیدھے سادھے اشلوکوں میں نہیں لکھی گئی۔ بلکہ تحریر کے لیے قصداً “سوتر” کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔

سُوتر کیا ہوتا ہے؟ “سوتر” (sutra) کے لفظی معنی سوت کا دھاگا، یا دھاگے کی ڈور ہے (جیسے شادی شدہ عورتوں کے گلے میں منگل سوتر ہوتا ہے)۔ اردو اور ہندی کے عام الفاظ سُوت اور سُتلی اسی ‘سوتر’ سے مشتق ہیں۔ لیکن سنسکرت ادب میں سوتر مختصر نویسی کی ایک اعلیٰ شکل ہے جو کسی مفصل بات کو مجمل اور خفی انداز میں بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

سُوتر چند لفظوں پر مشتمل انتہائی مختصر فقرہ ہوتا ہے، جس میں شعریت کے ساتھ گہری معنویت پوشیدہ ہوتی ہے۔ اسی لیے سوتر کو بیج سے بھی تشبہہ دی جاتی ہے۔ کیونکہ ہر بیج میں مکمل درخت، یعنی اس کی شاخوں، پتوں، پھولوں اور پھلوں کا جوہر (ڈی این اے) موجود ہوتا ہے۔ دریا کو کوزے میں بند کرنے کی مثال آپ نے سنی ہوگی۔ سوتر اس کی عملی صورت ہے۔ قدیم عربی اور لاطینی محاوروں میں اس اسلوب کی جھلک نظر آتی ہے۔ اگرچہ عام نثر کے مقابلے میں سنسکرت اشلوک (ہم قافیہ یا منظوم تحریر) بھی مختصر ہے۔ لیکن ‘سوتر’ اشلوک سے چار ہاتھ آگے ہے۔

آخرکار پرانے ہندوستانی ماہرین لکھنے کے لیے اشلوک اور سوتر کا انتخاب کیوں کرتے تھے؟ کیونکہ قدیم دور میں لکھائی اور چھپائی کے وسائل ہر وقت اور ہر جگہ موجود نہیں تھے۔ ابلاغ کا بنیادی ذریعہ انسانی ‘یادداشت’ تھی۔ قدیم عربوں کی طرح ہندوستان میں بھی حصولِ و ابلاغِ علم کا ذریعہ یادداشت کو سمجھا جاتا تھا۔ لکھنے کو کمتر درجے کا ہنر سمجھا جاتا تھا۔ کیونکہ اس سے تاثر اُبھرتا کہ یادداشت کمزور ہے۔ قدیم عربوں میں کھال اور ہڈی پر لکھنے کا رواج تھا۔ لیکن اہنسا کے قائل قدیم براہمن، جانور کی کھال، ہڈی، یا دیگر اجزا  سے بنی شے پر لکھنا حرام سمجھتے تھے۔ جبکہ ‘بھوج پَتر’ پر عموماً سرکاری احکامات لکھے جاتے۔ مقدس علوم، منتروں، فلسفے اور جیوتش کی کتابوں کو تو بالکل نہیں لکھا جاتا تھا۔ بلکہ زبانی حفظ کیا جاتا تھا۔ استاد اپنا علم شاگرد تک سینہ بہ سینہ منتقل کرتے۔ اور نسل در نسل یہ سلسلہ چلتا رہتا۔ ہندوؤں کی سب سے مقدس الہامی کتاب ‘رِگ وید’، ہزاروں سال پرانی ہے۔ لیکن اسے پہلی بار چند سو سال پہلے مغلوں کے دور میں لکھا گیا۔ سوتر کا اسلوب اختیار کرنے سے متن حفظ کرنے میں سہولت رہتی۔ اور یادداشت پر بوجھ بھی نہ پڑتا۔ حفظ کرنے کے بعد استاد سے سوتر کے معنی اور مطالب سمجھ لیے جاتے۔ سوتر لکھنے اور یاد رکھنے سے اخفائے راز کا پہلو بھی قائم رہتا۔ یعنی کم علموں اور غیر متعلق افراد سے اصل بات چھپی رہتی۔ جیمنی سوتر میں ان تمام اُمور کا خیال رکھا گیا ہے۔

جیمنی جیوتش مشکل کیوں ہے؟

جیمنی کی تحریر، سوتر کے ساتھ سرّی اور رمزیہ (ciphered_or_encoded) بھی ہے۔ جیمنی نے زائچے کے گھروں اور بروج کے لیے معروف نام اور عام ہندسے استعمال نہیں کیے گئے۔ بلکہ کوڈ ورڈ (رمزیہ الفاظ اور پہیلی نما تراکیب) استعمال کی ہیں۔ گھروں اور بروج کے لیے کوڈ ورڈ کا انتخاب جان بوجھ کر ایسے انداز میں کیا گیا ہے جس سے دو تین معنی نکل کر آتے ہوں۔ اپنے طلبہ کو فکری مشقت پر مائل کرنے کے لیے یہ جیمنی کے زرخیز ذہن کا کارنامہ ہے۔ لیکن بعد کے دور کے طلبہ کے لیے یہ پہیلی، الجھن بن گئی۔

جیمنی کے سرّی (ciphered) اندازِ تحریر کے پس پردہ سنسکرت “کاٹاپایادی” (Kaṭapayadi) نظام ابجد موجود ہے۔ “کاٹاپایادی” دراصل سنسکرت کے چار حروف کَ ٹَ پَ یَ کا مخفف ہے۔ جیسے لفظ “ابجد” عربی کے چار حروف ا ب ج د کا مخفف ہے۔ کاٹاپایادی طریقے میں تمام سنسکرت حروفِ صحیح (consonants) کو ایک سے نو تک ریاضیاتی ہندسوں (numbers) کے مساوی قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ حرف ن، اور مصوتوں (vowels) کے اعداد صفر ہیں۔ “کاٹاپایادی” نظامِ ابجد ممکنہ طور پر پانچویں صدی بعد از مسیح کے آس پاس جنوبی ہند میں معرضِ وجود میں آیا۔ اسے آپ عربی ابجدی قمری جیسا نظام سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن یہاں اعداد کی ترتیب، جمع گھٹا اور تقسیم کا انداز عربی سے جداگانہ ہے۔ “کاٹاپایادی” سسٹم سمجھنے کے لیے سنسکرت رسم الخط اور منسوب اعداد سے آگہی ضروری ہے۔

اس مقام پر میرے لیے جیمنی سوتر اور “کاٹاپایادی” کی مثال سمجھانا آسان نہیں۔ کیونکہ پاکستانی قارئین کے لیے جیمنی انجانا میدان اور سنسکرت بالکل اجنبی زبان ہے۔ فرض کریں مندرجہ لفظوں کا مجموعہ ایک سوتر ہے۔

مثال: دھن پہ سیاہ تالا ۔۔۔

یہ صرف جیمنی کا انداز اور اسلوب سمجھانے کے لیے مثال ہے (جیمنی کے کسی اصل سوتر کا حوالہ یا ترجمہ نہیں)۔ یہاں مثالی سوتر کا پہلا لفظ “دھن” ہے، تو شاید ذہن میں خیال آئے کہ دوسرے گھر کی بات ہورہی ہے۔ لیکن جیمنی سوتروں میں گھروں کے لیے مستعمل الفاظ رمزیہ یعنی کوڈڈ ہیں۔ اس لیے دھن کے اعداد نکالیے۔ چونکہ پاکستانی قارئین سنسکرت زبان اور “کاٹاپایادی” نظام سے آشنا نہیں۔ اس لیے اردو/عربی ابجد قمری کو عارضی متبادل سمجھتےہوئے، لفظ “دھن” کے اعداد نکالتے ہیں۔ جو 5 بنتے ہیں۔ اس لیے پانچواں گھر مراد ہوگا۔ سیاہ سے لامحالہ مراد شنی ہے۔ کیونکہ شنی کا ایک صفاتی نام “کالا” ہے۔ لہٰذا ترجمہ ہوگا: اگر زحل پانچویں گھر میں ہو تو تالا یعنی تاخیر و التوا کا معاملہ ہوگا۔ کس شعبہ زندگی میں؟ ظاہر ہے اولاد سے متعلق جو پانچویں گھر کا سب سے اہم موضوع ہے۔ آسان لفظوں میں زحل پانچویں گھر میں ہو تو اولاد دیر سے ہوگی، یا اولاد کی پرورش میں رکاوٹ ہوگی یا اس سے تعلق میں رکاوٹ رہے گی۔  واضح رہے کہ جیمنی کے اصل سوتروں کا اردو/عربی ابجد قمری سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہاں صرف جیمنی سوتر نامی کتاب کا انداز اور اسلوب سمجھانے کے لیے مثال بیان کی گئی ہیں۔ میرے لیے اس ویب پیج پر اردو کے ساتھ ساتھ سنسکرت (دیو ناگری) لکھنا تکنیکی طور پر ممکن نہیں۔ اور لکھ بھی دوں تو پاکستان میں پڑھے گا کون اور سمجھے کا کون؟ لیکن امید کرتا ہوں کہ میری علمی کاوش صدا بہ صحرا ثابت نہیں ہوگی۔

Katapayadi کاٹاپایا دی

اب زرا “جیمنی سوتر” میں موجود اصل سنسکرت لفظوں پر غور کرتے، جو مصنف نے گھروں اور بروج کے ناموں کے لیے استعمال کیے ہیں۔

سنسکرت لفظ پِتر/پِترو سے مراد باپ ہے جس کا گھر نواں ہے۔ لیکن جیمنی سوتر میں پہلے گھر کے لیے پِتر/پِترو کا کوڈ ورڈ استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ کاٹاپایادی نظام کے تحت جمع اور تقسیم کے بعد پِتر/پِترو کے عدد 1 بنتے ہیں۔

سنسکرت لفظ پُتر/پُترا سے مراد بیٹا ہے جس کا گھر پانچواں ہے۔ لیکن جیمنی سوتر میں نویں گھر کے لیے پُتر/پُترا کا کوڈ ورڈ استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ کاٹاپایادی نظام کے تحت جمع اور تقسیم کے بعد پُتر/پُترا کے عدد 9 بنتے ہیں۔

سنسکرت لفظ کاما سے مراد خواہشِ نفسانی یا عورت ہے جس کا گھر ساتواں ہے۔ لیکن جیمنی سوتر میں تیسرے گھر کے لیے کاما کا کوڈ ورڈ استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ کاٹاپایادی نظام کے تحت جمع اور تقسیم کے بعد کاما کے عدد 3 بنتے ہیں۔

سنسکرت لفظ پتنی سے مراد بیوی ہے، جس کا گھر ساتواں ہے۔ لیکن جیمنی سوتر میں پہلے گھر کے لیے پتنی کا کوڈ ورڈ استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ کاٹاپایادی نظام کے تحت جمع اور تقسیم کے بعد پتنی کے عدد 1 بنتے ہیں۔

سنسکرت لفظ بھاگیا سے مراد قسمت ہے، جس کا گھر نواں ہے۔ لیکن جیمنی سوتر میں دوسرے گھر کے لیے بھاگیا کا کوڈ ورڈ استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ کاٹاپایادی نظام کے تحت جمع اور تقسیم کے بعد بھاگیا کے عدد 2 بنتے ہیں۔

سنسکرت لفظ روگ سے مراد بیماری ہے، جس کا گھر چھٹا ہے۔ لیکن جیمنی سوتر میں آٹھویں گھر کے لیے روگ کا کوڈ ورڈ استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ کاٹاپایادی نظام کے تحت جمع اور تقسیم کے بعد روگ کے عدد 8 بنتے ہیں۔

چند تراکیب کا استعمال مترجمین اور قارئین کو مزید پریشان کردیتے ہیں۔ جیسے سنسکرت لفظ ‘تترا’ (tatra) ہے۔ اس کے عام لغوی معنی ہیں ‘اس جگہ’ یا ‘وہی مقام’۔ جبکہ “کاٹاپایادی” (Kaṭapayadi) جمع تقسیم کے بعد اس کے عدد 2 بنتے ہیں، یعنی مراد دوسرا گھر۔ جیمنی سوتر کے کئی سوتروں کی ابتدا اسی لفظ سے ہوتی ہے۔ لیکن یہ سمجھنا دشوار ہوجاتا ہے کہ مراد سابقہ بیان گیا ‘وہی مقام’ (انش یا پد) ہے، یا اس سے دوسرا گھر ہے۔ اسی طرح لفظ نیچ یا نیچا ہے۔ جیوتش میں نیچ سے مراد ہبوط ہے، جو سیارے کی نحس بروجی حالت ہے۔ لیکن جیمنی سوتر میں بارھویں گھر کے لیے نیچ کا کوڈ ورڈ استعمال کیا گیا ہے۔ سنسکرت لفظ ‘اُچ’ کا مطلب بلندی یا شرف ہے۔ لیکن یہ لفظ بھی بارھویں گھر کے لیے رمزیہ انداز میں استعمال ہوا ہے۔

جیمنی سوتر کی ایک اور بڑی مشکل یہ کہ ‘گھروں’ کے سیاق و سباق کو قصداً نظر انداز کرنا ہے۔ یعنی ہر سوتر میں گھر کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ جب کوئی نیا موضوع ہوتا ہے تو صرف پہلے سوتر میں گھر کا حوالہ ہے۔ اس کے بعد کئی سوتروں تک صرف مختلف نتائج لکھے ہیں۔ تاآنکہ نیا موضوع شروع نہ ہوجائے۔ درمیان میں کئی سوتر لفظ ‘تترا’ سے شروع ہوتے ہیں۔ جس سے مراد ‘وہی مقام’ بھی ہے۔ اور ‘اس سے دوسرا /اگلا گھر’ بھی ہے۔

جیمنی کا تاریخی پس منظر

جیمنی کب اور کہاں گزرے؟ “جیمنی سوتر” نامی کتاب کب لکھی گئی؟ اس بارے میں حتمی تاریخی شواہد کم ہیں، اور اندازے زیادہ ہیں۔ تاہم جیمنی سوتر کے “جیمنی”، ہندوستانی فلسفے Mīmāṃsā کے شارح جیمنی نہیں۔ جیوتش کے جیمنی کا رِگ وید اور مہابھارت کے مہارشیوں سے تعلق نہیں۔ یہ سب الگ الگ وقتوں میں گزرے افراد ہیں۔

ہندوستان کی تاریخ میں کئی بھرگو (Bhṛgu) گزرے ہیں، کئی پاراشر (Parāśara) گزرے ہیں، اسی طرح جیمنی (Jaimini) نام کے کئی ماہرین بھی تھے۔ تاریخ سے لاعلمی اور نام کی یکسانیت کی وجہ سے ان شخصیات کو ایک ہی سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ غلط فہمی انٹرنیٹ کے پھیلاؤ کے باعث بہت عام ہوگئی ہے۔

جیسا کہ میں نے ابتدائیے میں بیان کیا کہ “جیمنی سوتر” میں بروج اور گھروں کے نام کے لیے ایک خاص رمزی نظام کو بنیاد بنایا گیا ہے، جسے “کاٹاپایادی” (Kaṭapayadi) کہتے ہیں۔ یہ سرّی نظام چوتھی یا پانچویں صدی میں  ایجاد ہوا۔ آریا بھٹ (Āryabhaṭa) نامی معروف ریاضی دان نے بھی اسی نظام کا سہارا لیا۔ اس لیے جیمنی بھی کم و بیش اسی دور یا اس کے بعد آنے والی صدی سے تعلق رکھتے ہوں گے۔

آج کل جیمنی کو بہت سے افراد رِشی اور مہارِشی (Mahaṛṣi) بھی قرار دیتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی ہوسکتی ہے اور عقیدت میں ڈوبی قیاس آرائی بھی۔ اس بابت مستند تاریخی تحقیق میرے سامنے موجود نہیں۔ کم سے کم کسی پرانے ترجمے اور تفسیر میں انھیں مہارِشی نہیں کہا گیا۔ جیمنی سوتر کی سب سے نمایاں اور قابلِ تقلید تشریح نیل کنٹھ (Neelakantha) نے لکھی ہے، جو مغل بادشاہ اکبراعظم کے دربار میں ایک عالم اور نجومی تھا۔

بہت سے سادہ لوح طلبہ تو جیمنی (Jaimini) کو Gemini سمجھ بیٹھتے ہیں۔ انگریزی لفظ Gemini بمعنی برج جوزا کا  جیوتش کے قدیم ماہر Jaimini سے کوئی تعلق نہیں۔ جیمنی سے ملتا جلتا ایک اور قدیم ہندوستانی نام جے مُنی (JayMuni) ہے، جو ایک مختلف تاریخی شخصیت تھے۔ جیمنی کے نام سے میل کھاتا ایک معروف ریاضی دان اور ماہر نجوم Geminus یونانی تھا۔

جیمنی جیوتش سیکھنے کے ماخذ

جیمنی کے بہت سے اصول اور تکنیکوں کا خلاصہ، “براہت پاراشر ہورا شاستر” (BPHS) میں بھی موجود ہیں۔ ممکنہ طور پر انھیں بعد میں آنے والے پاراشر کے شاگردوں یا جیمنی کے عقیدت مندوں نے شاملِ کتاب کیا ہے۔ جیمنی سیکھنے کا سب سے اچھا ماخذ “جیمنی سوتر” ہی ہے۔ اس کے درجنوں ہندی تراجم ہوئے ہیں۔ تاہم معیاری انگریزی تراجم اور تشریحات دو تین ہی دستیاب ہیں۔

Jaimini_Sutram_by_Prof. P.S. Sastri

Jaimini_Sutras_by_B.S. Rao

Jaimini Texts

سن 80 کی دہائی میں بی وی رمن (B.V. Raman) کے آسٹرولوجیکل میگزین میں جیمنی جیوتش پر بہت سے شاندار مضامین شائع ہوئے۔ ان پرانے میگزین کو کھوجنا آسان نہیں۔ چند برس پہلے Iranganti Rangacharya نے جیمنی سوترم کا انگریزی ترجمہ اور تفسیر شائع کی ہے۔ اگرچہ یہ مشکل ہے، لیکن اس کے لطیف نکات میں موازنے کے لیے کافی مواد موجود ہے۔ کے این راؤ (K.N. Rao) کی کتابوں میں بھی جابجا جیمنی جیوتش کے حوالے اور عملی مثالیں موجود ہیں۔ جیمنی سوترم کے کسی بھی مستند ترجمے کے ساتھ اگر بی وی رمن (B.V. Raman) کی عام فہم معلوماتی کتاب “Studies_in_Jaimini_Astrology” کا مطالعہ کرلیا جائے تو بہت سی منازل آسان ہوجائیں گی۔

جیمنی جیوتش جاننے سے پہلے

جیمنی مکتب نجوم سے آشنائی سے قبل عام معیاری ہندی نجوم کے عناصر جاننا ضروری ہے۔ عام معیاری ہندی نجوم سے میری مراد پاراشری جیوتش ہے۔ یہ بات جیمنی نے خود اپنے سوتر میں صراحت سے کہی ہے۔ کیونکہ جیمنی جیوتش، اپنے آپ میں کوئی مکمل سسٹم نہیں۔ بلکہ یہ اضافی عناصر اور مخصوص اصول پیش کرتا ہے۔

ایک عام مثال سے جیمنی کی اہمیت اور مقصدیت کو سمجھتے ہیں۔ طب (medical_science) کی مثال لیجیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ طب میں سرجری کا ایک شعبہ ہے۔ صحت اور مرض کے نکتہ نظر سے دیکھیں تو سرجری (surgery) اپنے آپ میں مکمل نظام طب نہیں۔ بلکہ عام معیاری طب کی خصوصی شاخ ہے۔ اور خاص موقعے پر اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ عام نزلہ زکام یا بدہضمی کی صورت میں سرجری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صرف بڑے حادثاتی یا پیچیدہ صورتحال میں سرجری کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہر زائچہ دیکھنے کی ابتدا جیمنی جیوتش کے عناصر اور اصولوں سے نہیں کی جاتی۔ بلکہ انتہائی اہم شعبہ ہائے حیات (جیسے موت، خطرناک بیماری، شادی، زچگی، تاعمر غربت یا ثروت) کے سوال پر اگر عام پاراشری طریقے سے جواب نہ ملے تو جیمنی جیوتش کو لاگو کیا جاتا ہے۔ یا پھر اگر ماہرِ نجوم، عام پاراشری جیوتش کے مطابق کسی نکتے پر تذبذب کا شکار ہو تو جیمنی جیوتش سے تسلی کرلے۔ یہ ہے جیمنی جیوتش کی اصل مقصدیت۔

اس لیے جیمنی سے آشنائی سے قبل، پاراشر سے شناسائی ضروری ہے۔ اگر آپ کو پاراشری جیوتش کی بنیاد سے مکمل آگہی نہیں تو جیمنی جیوتش کے دریا میں چھلانگ مت لگائیے۔ ورنہ خواہ مخواہ الجھن کا شکار ہوں گے، اور پھر مایوس ہوکر اسے خیر باد کہہ دیں گے۔

اس کے علاوہ عملی نکتہ نظر سے چند چیزوں پر عبور لازمی ہے۔ پہلی مشق گنتی (counting) ہے۔ اگر آپ کو بروج کی معیاری (سیدھی) گنتی اور معکوس (اُلٹی) گنتی پر گرفت نہیں تو جیمنی کے اصول مشکل لگیں گے۔ معیاری گنتی سے مراد بروج (راشیوں) کی ترتیب میں سلسلہ وار گنتی ہے۔ جیسے حمل، ثور، جوزا، ۔۔۔۔ وغیرہ۔ اور معکوس (اُلٹی) گنتی سے مراد anti-zodiacal گنتی ہے۔ جیسے حمل، حوت، دلو، جدی، ۔۔۔ وغیرہ۔ اگر کہا جائے کہ سرطان (Cancer) سے تیسرے آٹھویں گھر کون سے ہیں۔ تو عام معیاری حساب سے نتیجہ سنبلہ (Virgo) اور دلو (Aquarius) ہوگا۔ لیکن معکوس گنتنی کی جائے تو سرطان (Cancer) سے تیسرا برج ثور (Taurus) اور آٹھواں برج قوس (Sagittarius) بنے گا۔ شروع شروع میں یہ عجیب لگتا ہے۔ لیکن پھر ذہن اس طریقے کو قبول کرکے مشاق ہوجاتا ہے۔

جیمنی میں گھر سے گھر کی گنتی بھی موجود ہے۔ یعنی پہلے سے پہلا، دوسرے سے دوسرا، تیسرے سے تیسرا وغیرہ۔ اسے “دوار (dwara)” اور “باھے (bahya)” راشی کا نام دیا گیا ہے۔ جو نجومی “مشتق بیوت” (derivative_houses) استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے یہ جانا پہنچانا طریقہ ہے۔

نیز بروج کی گنتی بلحاظِ ربعات (quadruplicity) بھی یاد ہونی چاہیے۔ کیونکہ جیمنی جیوتش میں سیارگان کی اپنی ذاتی نظرات نہیں ہوتیں۔ بلکہ بروج کے مابین نظرات (راشی درشٹی) کو لیا جاتا ہے۔ زائچہ میں چاروں (moveable) منقلب بروج سے پانچواں، آٹھواں اور گیارھواں گھر ذہن نشین ہونا چاہیے۔ چاروں ثابت (fixed) بروج سے تیسرا، چھٹا اور نواں گھر ازبر ہونا چاہیے۔ اسی طرح چاروں ذوجسدین (dual) بروج سے چوتھا، ساتواں اور دسواں گھر یاد ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں کہ تجزیے کے وقت آپ زائچہ کو لوڈو سمجھ کر اس پر انگلیاں گمارہے ہوں۔

جیمنی جیوتش میں سب سے اہم مقام کارک اَنش (Kārakaṃśa) ہے۔ جس کا براہِ راست تعلق نوانش (D9-Navaṃśa) سے ہے۔ اگر آپ کو نوانش کی شُدبُد نہیں تو پھر جیمنی جیوتش سیکھنے سے پہلے نوانش کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ نوانش کی بنیاد، تخمین اور استعمال پر میں سوشل میڈیا پر کئی پوسٹیں تحریر کرچکا ہوں۔ نوانش سمجھے بغیر جیمنی جیوتش نامکمل ہے۔

نئے دور کے نوجوان کمپیوٹر سوفٹ ویئر سے زیادہ موبائل ایپ پر انحصار کرتے ہیں۔ جیمنی کے لیے ایک مفت اور معیاری ایپ کا نام JyotishApp ہے۔ اسے گوگل پلے اسٹور سے ڈاؤن لوڈ کرلیجیے۔ اس میں وسیع تر آپشن کے علاوہ جیمنی میں مستعمل “چر دَشا” بھی موجود ہیں۔

جیمنی جیوتش کے منفرد عناصر

جیمنی جیوتش میں اگرچہ بارہ بروج اور نوگرہ پر ہی انحصار کیا جاتا ہے۔ لیکن نظرات، منسوبی کواکب، اور دشاوؤں کا نظام بالکل منفرد ہے۔ عام جیوتش میں سیارگان کی اپنی مخصوص نظرات ہوتی ہیں۔ جیسے شمس، قمر، عطارد اور زہرہ کی ساتویں نظر۔ مریخ کی چوتھی اور آٹھویں نظر۔ مشتری کی پانچویں اور نویں نظر۔ زحل کی تیسری اور دسویں نظر۔ لیکن جیمنی اصول اور تکنیکیں لاگو کرتے وقت ان تمام نظرات کو زیر غور نہیں لایا جاتا۔ بلکہ ایک جداگانہ بنیاد پر اخذ کردہ نظرات دیکھی جاتی ہیں۔ راشی چارٹ اور نوانش چارٹ ویسا ہی رہتا ہے۔ لیکن نظرات الگ ہوتی ہیں۔ عام جیوتش میں ہر سیارہ بہت سے فطری عوامل سے منسوب ہوتا ہے۔ جیسے بھائیوں کا کارک مریخ ہے۔ ماں کا کارک قمر ہے۔ اولاد کا کارک مشتری ہے۔ لیکن جیمنی اصول اور تکنیکیں لاگو کرتے وقت ایک مختلف طریقے سے اخذ کردہ کارک کو فوقیت دی جاتی ہے۔ اسے چر کارک کہتے ہیں، جس کی بنیاد درجاتِ سیارگان ہے۔ نیز جنم لگن کے علاوہ مخصوص مقامات سے باقی سیارگان کو دیکھا جاتا ہے جیسے کارکانش، آروڈھ پد، اُپ پد وغیرہ۔ ان سب امور کی وضاحت معہ مثال آگے بیان کی گئی ہے۔

جیمنی جیوتش میں نظرات (دِرِشٹی):

جیمنی میں نظرات زرا مختلف انداز کی ہیں۔ جس کی بنیاد بروج (یعنی راشیوں) کے مابین متعین تعلق ہے۔ اس تعلق کو راشی دِرِشٹی (یعنی بروجی نظرات) کہا جاتا ہے۔

اصول: ہر منقلب (moveable) برج دیگر تین ثابت بروج پر ناظر ہے، ماسوائے اپنے سے اگلے برج کے۔

اصول: ہر ثابت (fixed) برج دیگر تین منقلب بروج پر ناظر ہے، ماسوائے اپنے سے پچھلے برج کے۔

اصول: ہر ذوجسدین (dual) برج دیگر تین ذوجسدین  بروج پر ناظر ہے۔

اصول: ناظر برج میں اگر کوئی سیارہ بیٹھا ہو تو وہ اپنے قابض برج کی طرح باقی بروج اور اُن میں بیٹھے سیارگان پر ناظر ہوگا۔

منقلب (moveable)، ثابت (fixed) اور ذوجسدین (dual) بروج کے نام یہ ہیں۔

منقلب بروج (چر راشیاں): حمل (Ari)، سرطان (Can)، میزان (Lib)، جدی (Cap)۔

ثابت بروج (استھر راشیاں): ثور (Tau)، اسد (Leo)، عقرب (Sco)، دلو (Aqu)۔

ذوجسدین بروج (دوئی سبھاؤ راشیاں): جوزا (Gem)، سنبلہ (Vir)، قوس (Sag)، حوت (Pis)۔

مذکورہ بالا اصولوں کی روشنی میں اخذ کردہ نظرات کو “راشی دِرِشٹی” بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ جیمنی نے اپنے سوتر میں یہ الفاظ استعمال نہیں کیے، لیکن نظرات سیارگان (گرہ دِرِشٹی) سے جداگانہ شناخت کے لیے شارحین (commentators) انھیں “راشی دِرِشٹی” کہتے ہیں۔

مختصراً ؛

ہر منقلب برج (چر راشی) اپنے سے پانچویں 5th، آٹھویں 8th اور گیارھویں 11th کو ناظر ہے۔

ہر ثابت برج (استھر راشی) اپنے سے تیسرے 3rd، چھٹے 6th اور نویں 9th کو ناظر ہے۔

ہر ذوجسدین برج (دوئی سبھاؤ راشی) اپنے سے چوتھے 4th، ساتویں 7th اور دسویں 10th کو ناظر ہے۔

اگر ہر برج کی نسبت الگ الگ دیکھا جائے تو؛

بذریعہ راشی درشٹی برج حمل (Ari) ناظر ہے: اسد (Leo) پر، عقرب (Sco) پر، اور دلو (Aqu) پر۔

بذریعہ راشی درشٹی برج ثور (Tau) ناظر ہے: سرطان (Can) پر، میزان (Lib) پر، اور جدی (Cap) پر۔

بذریعہ راشی درشٹی برج جوزا (Gem) ناظر ہے: سنبلہ (Vir) پر، قوس (Sag) پر، اور حوت (Pis) پر۔

بذریعہ راشی درشٹی برج سرطان (Can) ناظر ہے: عقرب (Sco) پر، دلو (Aqu) پر، اور ثور (Tau) پر۔

بذریعہ راشی درشٹی برج اسد (Leo) ناظر ہے: میزان (Lib) پر، جدی (Cap) پر، اور حمل (Ari) پر۔

بذریعہ راشی درشٹی برج سنبلہ (Vir) ناظر ہے: قوس (Sag) پر، حوت (Pis) پر، اور جوزا (Gem) پر۔

بذریعہ راشی درشٹی برج میزان (Can) ناظر ہے: دلو (Aqu) پر، ثور (Tau) پر، اور اسد (Leo) پر۔

بذریعہ راشی درشٹی برج عقرب (Sco) ناظر ہے: جدی (Cap) پر، حمل (Ari) پر، اور سرطان (Can) پر۔

بذریعہ راشی درشٹی برج قوس (Sag) ناظر ہے: حوت (Pis) پر، جوزا (Gem) پر، اور سنبلہ (Vir)۔

بذریعہ راشی درشٹی برج جدی (Cap) ناظر ہے: ثور (Tau) پر، اسد (Leo) پر، اور عقرب (Sco) پر۔

بذریعہ راشی درشٹی برج دلو (Aqu) ناظر ہے: حمل (Ari) پر، سرطان (Can) پر، اور میزان (Lib) پر۔

بذریعہ راشی درشٹی برج حوت (Pis) ناظر ہے: جوزا (Gem) پر، سنبلہ (Vir) اور قوس (Sag)۔

٭ ٭ ٭

جیمنی نظرات کی عملی مثال-1

اس راشی کنڈلی میں قمر Mo حمل (Ari) میں ہے۔ حمل ایک منقلب (moveable) برج ہے۔ بیان کیے گئے اصولوں کے مطابق یہاں برج حمل (Ari) کا، اسد (Leo)، عقرب (Sco) اور دلو (Aqu) سے (بذریعہ راشی درشٹی) نظری تعلق ہے۔ اس لیے یہاں قمر Mo دیکھتا ہے عطارد Me کو، زہرہ Ve کو اور مشتری Ju کو۔ اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ عطارد Me، زہرہ Ve اور مشتری Ju  یہ تینوں – قمر Mo کو دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ راشی درشٹی دراصل دو طرفہ تعلق ہوتا ہے۔ اِن تینوں سیارگان کی قمر Mo پر راشی درشٹی ہے۔

اس زائچہ میں شمس Su برج سرطان (Can) میں ہے۔ منقلب برج سرطان (Can) کا تین ثابت بروج یعنی عقرب (Sco)، دلو (Aqu) اور ثور (Tau) سے فطری نظری تعلق ہے۔ اس لیے یہاں سرطان (Can) میں بیٹھا شمس Su بھی عقرب (Sco) پر، دلو (Aqu) پر اور ثور (Tau) پر ناظر ہے۔ یہ جیمنی جیوتش کے حساب سے راشی درشٹی ہے۔ ورنہ پاراشری جیوتش میں شمس کی ساتویں نظر ہوتی ہے۔ اگر سوال کیا جائے کہ اس زائچہ میں شمس پر کون سے سیارگان راشی درشٹی رکھتے ہیں؟ تو جواب ہوگا مشتری Ju جو برج عقرب (Sco) کے توسط سے شمس پر ناظر ہے۔ جبکہ برج دلو (Aqu) اور ثور (Tau) خالی ہیں۔

یہاں طالع سنبلہ (Vir) کا مالک عطارد Me ہے۔ جو بارھویں گھر اسد (Leo) میں مقیم ہے۔ اسد ایک ثابت (fixed) برج ہے۔ راشی درشٹی کے لحاظ سے اسد (Leo) کا، میزان (Lib)، جدی (Cap)، اور حمل (Ari) سے فطری نظری تعلق ہے۔ یہاں عطارد Me پر زحل Sa اور قمر  Mo ناظر ہیں۔ کیونکہ زحل منقلب برج میزان (Lib) میں ہے، اور قمر Mo بھی منقلب برج حمل (Ari) میں ہے۔  جبکہ جدی (Cap) خالی ہے۔ اگرچہ عطارد Me یہاں زہرہ Ve کے ساتھ ایک ہی برج میں ہے۔ لیکن عطارد یہاں زہرہ سے یُکت (associated) ہے۔ ساتھ بیٹھے سیارے سے تعلق کو یُکت (یوتی) کہتے ہیں، ناظر (درشٹا aspecting) نہیں کہتے۔

اسی زائچہ میں جنم لگن سنبلہ (Vir) ہے، جو ایک ذوجسدین (dual) برج ہے۔ سنبلہ (Vir) کا باقی تینوں ذوجسدین بروج یعنی قوس (Sag)، حوت (Pis) اور جوزا (Gem) سے فطری نظری تعلق ہے۔ اس لیے سنبلہ (Vir) ان تینوں بروج پر ناظر (aspecting) ہے، اور ان تینوں سے نظر وصول بھی کررہا ہے (under-aspect)۔ اگر سوال ہو کہ اس طالع برج سنبلہ (Vir) پر کون سے سیارگان ناظر ہیں؟ تو جواب ہوگا کہ مریخ Ma، راہو Ra اور کیتو Ke۔

جیمنی نظرات کی عملی مثال-2

یہ پاکستان کا زائچہ قیام ہے۔ یہاں راشی (D1) اور نوانش (D9) چارٹ دیے گئے ہیں۔ نوانش میں دسویں گھر اسد (Leo) کا مالک شمس Su ہے۔ شمس پر راشی درشٹی معلوم کرتے ہیں۔ یہاں شمس اس لیے بھی اہم ہے کہ جیمنی اصولوں کے مطابق شمس آتم کارک (AK) ہے۔ اس لیے حوت (Pis) کارکانش کی حیثیت رکھتا ہے (ان کا تفصیلی بیان اسی مضمون کے اگلے حصوں میں موجود ہے)۔

پاکستان کے نوانش (Navamsa) میں موجود شمس Su پر نظرات دیکھنے کے لیے ہمیں دیگر ذوجسدین (dual) بروج کو دیکھنا ہوگا۔ کیونکہ شمس بذات خود ذوجسدین برج حوت میں موجود ہے۔ شمس Su پر صرف مریخ Ma کی نظر ہے۔ کیونکہ مریخ بھی ذوجسدین برج قوس (Sag) میں بیٹھا ہے۔ باقی ذوجسدین بروج (جوز اور سنبلہ) خالی ہیں۔ دسویں کا مالک، حقیقی حکمران کا عکاس ہے۔ اس پر پہلے اور چھٹے کے مالک منگل (مریخ) کی راشی درشٹی، اپنی وضاحت آپ ہے۔

جیمنی جیوتش میں ارگل اور وِرودھ ارگل

جیمنی میں نظرات سے منسلک ایک اضافی قاعدہ موجود ہے، جسے ارگل (Argala) کہتے ہیں۔ سنسکرت میں ارگل کا لفظی معنی ہے دروازے کی کنڈی، کڑی یا چٹخنی۔ یہ دراصل سیارگان کی مخصوص پوزیشن کا نام ہے۔

اصول: کسی ناظر سیارہ یا اہم مقام سے چوتھے، دوسرے، گیارھویں میں سیارگان بیٹھے ہوں تو وہ ارگل کہلاتے ہیں۔

اصول: چوتھے بیٹھے سیارہ کے لیے دسویں بیٹھا سیارہ، دوسرے بیٹھے کے لیے بارھواں بیٹھا گھر، اور گیارھویں بیٹھے کے لیے تیسرے بیٹھا سیارہ “وِرودھ ارگل” کا کام کرتا ہے۔

واضح رہے کہ ارگل کو ہر گھر اور ہر سیارے کے حوالے سے نہیں دیکھتے۔ اسے صرف ناظر سیارہ (aspecting planet)، یا یوگ بنانے والے کسی اہم سیارہ، یا اہم مقام کے حوالے سے زیرغور لایا جاتا ہے۔ ارگل قائم کرنے والے سیارے اگر فطری سعد ہوں تو اس صورت کو شبھ ارگل (یعنی سعد قفل یا نیک حصار) کہیں گے۔ اس کے برعکس اگر فطری نحس سیارے ہوں تو اشبھ ارگل (نحس قفل)۔ اگر سعد اور نحس دونوں ہوں تو مِسرا ارگل (مشترک قفل)۔

فرض کریں کہ کسی زائچہ میں شمس Su برج قوس (Sag) میں ہے، اور خود ایک اہم ناظر (aspectant) ہے۔ جو بذریعہ راشی درشٹی، لگن (Asc) اور ضمنی لگنوں (GL, HL) کو دیکھ رہا ہے۔ اب اگر اس شمس کے قابض برج قوس (Sag) سے چوتھے حوت (Pis)، دوسرے جدی (Cap)، گیارھویں میزان (Lib) میں سیارے بیٹھے ہوں تو یہ صورتحال ارگل (argala) ہے۔ نتیجتاً شمس کی نظر بالکل پکا کام کرے گی۔ یعنی شمس کی نظر سے بننے والے راج یوگ کے اثرات یقینی ہوں گے۔

اوپر بیان کی گئی پوزیشن یعنی چوتھے (4th)، دوسرے (2nd)، گیارھویں (11th) گھر کو بنیادی ارگل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ تیسرے (3rd) گھر میں اگر دو سے زائد فطری نحس سیارے بیٹھے ہوں تو وہ خصوصی ارگل کا کام کرتے ہیں۔ ثانوی طور پر کسی بھی ناظر سیارہ یا اہم مقام سے پانچواں (5th) گھر بھی ارگل ہے۔  پانچویں گھر کے ارگل کا وردوھ ارگل نواں گھر ہے۔ ارگل کے لیے چوتھے، دوسرے، گیارھویں اور پانچویں گھر کی گنتی عام معیاری طریقے کے مطابق ہے۔ تاہم کیتو کے لیے یہ گنتی معکوس (inverse) ہوتی ہے۔

متحرک منسوبی کواکب (چر کارک)

جیمنی جیوتش میں سات سیارگان کو سات نسبتیں یا القابات دیے گئے ہیں۔ سیارگان کے یہ القابات (titles) ہر زائچہ میں الگ الگ ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے انھیں چرکارک کہتے ہیں۔ سنسکرت میں چر (chara) کا مطلب ہوتا ہے بدلنے والا، متحرک، منقلب۔ چونکہ ہر زائچہ میں چر کارک کے حامل سیارگان الگ الگ ہوتے ہیں، اسی لیے انھیں چر یعنی بدلنے والے اور متحرک کہا جاتا ہے۔ سات چر کارک کے نام یہ ہیں۔ آتم یا آتما کارک (AK)، امات یا اماتیا کارک (AmK)، بھرترو کارک (BK)، متری یا مترو کارک (MK)، پُتر کارک (PK)، جاتی کارک (GK)، اور دار کارک (DK)۔ سوفٹ ویئر اور ایپس میں عموماً انھیں انگریزی مخفف کی صورت میں  ظاہر کیا جاتا ہے۔

اصول:   زائچہ میں پہلے نمبر پر یعنی سب سے زیادہ درجات رکھنے والا سیارہ آتما کارک (AK) کہلاتا ہے۔

اصول:   زائچہ میں دوسرے نمبر پر زیادہ درجات رکھنے والا سیارہ اماتیا کارک (Amk) کہلاتا ہے۔

اصول:   زائچہ میں تیسرے نمبر پر زیادہ درجات رکھنے والا سیارہ بھرترو کارک (BK) کہلاتا ہے۔

اصول:   زائچہ میں چوتھے نمبر پر زیادہ درجات رکھنے والا سیارہ مترو کارک (MK) کہلاتا ہے۔

اصول:   زائچہ میں پانچویں نمبر پر زیادہ درجات رکھنے والا سیارہ پُتر کارک (PK) کہلاتا ہے۔

اصول:   زائچہ میں چھٹے نمبر پر زیادہ درجات رکھنے والا سیارہ جاتی کارک (GK) کہلاتا ہے۔

اصول:   زائچہ میں ساتویں نمبر پر یعنی سب سے کم درجات رکھنے والا سیارہ دار کارک (DK) کہلاتا ہے۔

یہ سات بنیادی اصول، سات چر کارک سیارگان کے لیے ہیں۔ غور کیجیے ان سات ناموں کا زائچہ کے اولین سات گھروں سے (یعنی پہلے سے لے کر ساتویں گھر تک) موازنہ کیا جاسکتا ہے۔

Chara Karaka چر کارک

چر کارک سے متعلق استثنا (exception) بھی ہے۔ کسی نایاب صورتحال میں اگر دو سیارگان ایک ہی درجہ (ڈگری) اور دقیقہ (منٹ) پر آجائیں تو پھر راہو (Rahu) کو چرکارک کی فہرست میں شامل کرتے ہیں۔ اس طرح آٹھ سیارگان مل کر سات چر کارک ترتیب دیتے ہیں۔

بالفرضِ محال اگر تین یا زائد سیارگان ایک ہی ڈگری منٹ پر آجائیں تو پھر خالی رہ جانے والی چر کارک کی جگہ پاراشری جیوتش میں رائج کارک گرہ (عام منسوبی کواکب) کو شامل کرتے ہیں۔ کیتو (Ketu) کسی صورت کسی نوعیت کا چر کارک نہیں بن سکتا۔ نہ ہی جنم لگن (طالع) کو چر کارک بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح نودریافت شدہ سیارگان (یورنس، نیپچون، پلوٹو) کو چر کارک کے القابات نہیں دیے جاتے۔ یورنس، نیپچون، پلوٹو کا جیمنی جیوتش میں کوئی کردار نہیں۔

بعض ماہرین چر کارک کی فہرست میں پُتر کارک (PK) کی جگہ پِترو کارک (PiK) کو لیتے ہیں۔ لیکن چر کارک کی کل تعداد سات ہی رکھتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ چوتھے درجے پر فائز مترو کارک (MK) سیارہ سے پُتر کارک (PK) کے معاملات بھی دیکھتے ہیں۔ یعنی MK اور PK کو باہم ضم کردیتے ہیں (ایک ہی سیارے کو دو القابات دے کر)۔ جبکہ پُتر کارک (PK) کی وجہ سے خالی ہونے والی جگہ یعنی پانچویں درجہ پر پِترو کارک (PiK) کو فائز کردیتے ہیں۔ یہ صرف منسوبی ناموں کا اُلٹ پھیر ہے۔

تاہم بعض ماہرین پِترو کارک (PiK) کو شامل کر کے، پہلے سے موجود سات چر کارک کی تعداد کو آٹھ بنا لیتے ہیں۔ یہ مختلف طریقہ ہے۔ جس کے لیے راہو کو ہمیشہ چر کارک کی فہرست میں جگہ دینی پڑتی ہے۔ کچھ عشرے پہلے تک اس طریقے کا زیادہ رواج نہیں تھا۔ لیکن آج کل یہ طریقہ سوفٹ ویئرز کی ڈیفالٹ سیٹنگ کی وجہ سے مشہور ہوگیا ہے۔

میرے مشاہدے میں سات چر کارک کا طریقہ زیادہ بہتر ثابت ہوا ہے۔ سات سیارگان یعنی سورج، چندر، منگل، بدھ، گورو، شکر اور شنی کی فہرست میں سب سے زیاد ڈگری رکھنے والے سیارہ سب سے اہم ہے۔ اس سیارہ کو آتما کارک (AK) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ صاحبِ زائچہ (یعنی مولود) کا اپنا ذاتی نمایندہ ہے۔ جس طرح سورج کو باقی سیارگان پر فوقیت حاصل ہے۔ اسی طرح باقی کارکوں کے مقابلے میں آتما کارک (AK) کی حیثیت بادشاہ کی طرح ہے۔

راشی اور نوانش میں آتما کارک (AK) سیارہ اگر اچھے گھر میں قابض ہو، اچھے گھروں کی ملکیت رکھتا ہو، اور اچھے سیارگان سے تعلق رکھتا ہو تو یہ پورے زائچہ کو طاقتور اور سعد بنادیتا ہے۔ سات سیارگان میں سے کوئی بھی سیارہ آتما کارک بن سکتا ہے۔ آتما کارک سیارہ سے “کارکانش” کے مقام کا تعین بذریعہ نوانش کیا جاتا ہے۔

مثال: سب سے پہلے راشی چارٹ کے تمام سیارگان کو بلحاظِ درجات ترتیب دیں۔ سیارے کا گھر، برج، راشنی نمبر وغیرہ نہ دیکھیں۔ بس ڈگری کے لحاظ سے سیارگان کی ترتیب اہم ہے۔

اس زائچہ پیدائش میں سب سے زیادہ ڈگری رکھنے والا سیارہ زحل Sa ہے۔ اس لیے یہاں زحل کو آتما کارک (AK) کہا جائے گا۔ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ڈگری رکھنے والا سیارہ مریخ Ma ہے۔ اس لیے مریخ اماتیا کارک (AmK) کہلائے گا۔ اسی طرح باالترتیب شمس Su بھرترو کارک (BK)، زہرہ Ve مترو کارک (MK)، قمر Mo پتر کارک (PK)، مشتری Ju جاتی کارک (GK)، اور عطارد Me دار کارک (DK) ہوں گے۔

اگرچہ جیوتش میں سیارگان تو 7 یا 9 ہی مستعمل ہیں، لیکن عام پاراشری جیوتشں میں کارکوں (karakas) کے نام بہت سارے ہیں کیونکہ ہر ایک سیارے کو کئی کئی کارکتوا (منسوبات) عطا کری گئی ہیں۔ یوں کارکوں کے ناموں کی فہرست لمبی ہے۔ بلکہ دنیا میں جس قدر موضوعات ہیں، اتنے ہی کارک ممکن ہیں۔ اس کے برعکس اختصار پسند جیمنی نے کارک کے لیے صرف سات آٹھ ناموں پر اکتفا کیا ہے۔ اور انھی سے تمام اہم امور کر دیکھنے کا اشارہ دیا ہے۔

چر کارک کی فہرست میں پہلے نمبر پر آتما کارک ہے۔ آتما کارک (AK) سے مراد صرف روح کا منسوبی کوکب نہیں۔ اور نہ ہی آتما کارک کو صرف روحانی امور کے لیے دیکھتے ہیں۔ یہ نئے دور کی عام غلط فہمی ہے۔ سنسکرت میں آتما کا ایک مطلب روح ضرور ہوتا ہے۔ لیکن آتما، “خود اپنے آپ اور اپنی ذات” کو کہتے ہیں۔ یہ دراصل لگن (طالع) کے مماثل مرتبہ ہے۔ جیسے پہلے گھر کا نام تن بھاؤ ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے گھر سے صرف تن یعنی جسم دیکھا جاتا ہے۔ یہ صرف ایک نام یا لقب (title) ایک ہے۔ لیکن اس کی مقصدیت کافی وسیع ہے۔ اسی آتما کارک کی نوانش پوزیشن سے بہت سے معاملات دیکھے جاسکتے ہیں۔ بلکہ اس نوانش پوزیشن کا اپنا مخصوص نام “کارکانش” ہے۔

کارکانشَ یا سوانشَ

جیمنی جیوتش میں سب سے اول اور سب سے اہم مقام کارکانش (Kārakaṃśa) کو حاصل ہے۔ یہ سنسکرت کے دو لفظوں کارک، اور انش کا مجموعہ ہے۔ کارکَ + اَنشَ  =  کارکانش۔ جیمنی نے جابجا اسے “سوانش (Svaṃśa)” بھی کہا ہے۔ سنسکرت میں سُوا (sva) کے معنی ہیں: اپنا یا ذاتی۔ یعنی جو کچھ آپ (بطور مولود) رکھتے ہوں، چاہے وہ آپ کی صحت ہو یا بیماری، آپ کی دولت ہو یا تنگی، علم ہو یا ہنر، معاش ہو یا مرتبہ۔ مختصراً  کارکانش کا مقام، صاحبِ زائچہ کی اپنی ذات سے منسلک آگہی دیتا ہے۔

سات سیارگان میں سب سے زیادہ درجہ (ڈگری) پر موجود سیارہ آتما کارک کہلاتا ہے۔ کارکانش معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلے آتما کارک سیارہ کو نشان زد (marked) کرلیں۔ اب اس کی پوزیشن زائچہ نوانش میں دیکھیں۔ آتما کارک سیارہ، نوانش کنڈلی (D9-Navamsa) میں جس برج میں پڑے، وہ برج کارکانش (Karakamsa) یا سوانش (Svamsa) کہلاتا ہے۔

یاد رہے کہ کارکانش ایک برج یعنی ‘مقام’ (place) ہے. اور آتما کارک ایک سیارہ (planet) ہے۔

مثال کے طور پر کسی فرد کے زائچہ پیدائش (D1-Rasi) میں زہرہ Ve برج دلو (Tau) کی 27 ڈگری پر ہو، اور اسے آتما کارک (AK) کا رتبہ حاصل ہو۔ کارکانش جاننے کے لیے اس آتما کارک زہرہ Ve کو نوانش میں دیکھا جائے گا۔ حساب کرنے پر (یا سوفٹ ویئر سے) معلوم ہوا کہ نوانش میں زہرہ برج جوزا (Gem) میں ہے۔ اس لیے یہاں جوزا (Gem)، کارکانش کہلائے گا۔ پیش گوئی کے لیے کارکانش بہت اہم مقام ہے۔

جیمنی جیوتش میں کارکانش (Karakamsa) سب سے اہم متبادل (alternate) طالع ہے۔ جس طرح آپ جنم لگن سے جسمانی حالت، صحت، دکھ سکھ، رنگ روپ، مقصدیت، پہچان، شہرت وغیرہ دیکھتے ہیں۔ ویسے ہی کارکانش (Karakamsa) سے یہ تمام موضوعات دیکھے جاتے ہیں۔جس طرح جنم لگن سے دوسرے گھر اور دسویں گھر سے آمدن اور معاش کو دیکھا جاتا ہے، اسی طرح کارکانش سے دوسرے اور دسویں گھر سے ذرائع معاش کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ جیسے جنم لگن سے چوتھے گھر سے پراپرٹی زمین جائیداد دیکھتے ہیں۔ ویسے ہی کارکانش سے چوتھے گھر سے زمین جائیداد کی کیفیت اور سکھ دکھ دیکھتے ہیں۔ جیسے جنم لگن کے پانچویں گھر سے علم و ہنر کا قیاس کیا جاتا ہے۔ ویسے ہی کارکانش سے پانچویں گھر سے وِدیا (علم و ہنر) کو دیکھا جاتا ہے۔

غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کارکانش کے باب میں جیمنی سوتر کے  بیشتر موضوعات تجریدی (abstract) ہیں۔ کیونکہ انسانی رشتوں کے نام پر مبنی چر کارک کی فہرست پہلے دی جاچکی۔ چر آتما کارک کے نوانش یعنی کارکانش سے مولود کی اپنی زندگی اور اپنے معاملات کا جاننے کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔

کارکانش کی عملی مثال-1

اس زائچہ میں آتما کارک (AK) زحل Sa ہے۔ زائچہ نوانش میں یہ آتما کارک برج سرطان (Can) میں بیٹھا ہے۔ اس لیے سرطان (Can) کارکانش کہلائے گا۔ اس برج سرطان کو جیمنی میں کئی طریقوں سے دیکھا جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو مولود کی فطرت میں سرطانی خصوصیات کا پہلو نمایاں ہوگا۔ یعنی منقلب المزاجی، جذباتی پن، عقل کا کچا لیکن دل کا نیک، والدین سے محبت، گھومنے پھرنے اور پانی کا شوقین وغیرہ۔ نیز مولود کے جسم کو سرطان سے منسلک بیماریاں (نزلہ، زکام، بلغم، پسینہ، غدود، فربہ پن وغیرہ) بھی لاحق ہوسکتی ہیں۔

جیمنی کے مطابق جو سیارہ، کارکانش (Karakamsa) سے یُکت (associated) ہو وہ صاحبِ زائچہ کی زندگی کو قوی انداز میں متاثر کرتا ہے۔ اس مثال میں کارکانش کے مقام سرطان میں (آتما کارک زحل کے علاوہ) دو اور سیارگان یعنی مریخ Ma اور قمر Mo موجود ہیں۔ اس لیے مولود کو مریخ اور قمر کی فطری منسوبات متاثر کریں گی۔ وہ اپنی والدہ سے (بوجہ اتصالِ قمر) اور بھائیوں سے (بوجہ اتصالِ مریخ) قربت رکھے گا۔ ان کی مدد کرے گا، اور ان کے مشوروں پر عمل کرے گا۔ ان نتائج کی توثیق عام پاراشری اصول کے مطابق راشی چارٹ سے بھی ہوتی ہے۔

میرے تجرے کے مطابق کارکانش میں موجود (آتما کارک اور اس سے متصل دیگر) سیارگان کی ملکیت اہم نکتہ ہے۔ اس مثال میں نوانش لگن میزان (Lib) سے آتما کارک زحل Sa خود اچھے گھروں یعنی چوتھے اور پانچویں کا مالک ہے۔ جبکہ مریخ دوسرے اور ساتویں کا مالک ہے۔ جبکہ قمر دسویں کا مالک ہے۔ نتیجتاً کارکانش بہت مضبوط تصور کیا جائے گا۔ یہاں کارکانش کو کوئی اور سیارہ یا چر کارک نہیں دیکھتا۔ یاد رہے کہ یہاں نظر سے مراد جیمنی کی راشی درشٹی ہے۔

عام طور پر زحل اور مریخ کا ایک ساتھ اتنے قریب بیٹھا نحس مانا جاتا ہے۔ لیکن مذکورہ بالا مثال میں اتفاق سے زحل آتما کارک (AK) ہے، اور مریخ اماتیا کارک (Amk) ہے۔ راشی چارٹ اور نوانش چارٹ، دونوں زائچوں میں زحل (بطور آتما کارک) اور مریخ (بطور اماتیا کارک) کا ملاپ “راج سمبندھ یوگ” ہے۔ لہٰذا یہ مولود کسی اعلیٰ شخصیت کے زیر سایہ یا بڑے ادارے سے منسلک ہوگا۔ اسے محسن کی کرم فرمائی سے پیشہ ورانہ فائدہ ملے گا۔ تاہم دونوں سیارگان آتما کارک اور اماتیا کارک چونکہ فطری نحس ہیں۔ اس لیے حاصل کردہ کرم فرمائی اور فائدے میں تاخیر اور جذباتی درشتگی کا پہلو بھی تھوڑا بہت شامل ہوگا۔

کارکانش کی عملی مثال-2

اس زائچہِ پیدائش میں سیارہ عطارد Me سب سے زیادہ درجات (ڈگری) کا حامل ہونے کی وجہ سے آتما کارک (AK) ہے۔ آتما کارک عطارد Me کو زائچہ نوانش میں دیکھا تو معلوم کہ وہ جوزا (Gem) میں ہے۔ اس لیے یہاں جوزا (Gem)  کارکانش (Karakamsa) کہلائے گا۔ جوزا کارکانش میں (آتما کارک عطارد کے علاوہ) تین سیارگان زحل Sa، قمر Mo، اور راہو Ra موجود ہیں۔ جبکہ مریخ Ma کی راشی درشٹی بھی ہے۔ اس لیے کارکانش بہت قوی ہے۔ تاہم اس قوت میں سعادت اور نحوست دونوں موجود ہیں۔ چونکہ کارکانش جوزا ہے، اس لیے اس فرد میں ذہانت اور قابلیت بدرجہ اتم موجود ہوگی۔ جسے وہ اپنے پیشہ ورانہ امور، وکالت اور سیاست میں استعمال کرے گا۔

راشی کنڈلی اور نوانش کنڈلی، دونوں زائچوں میں نحس سیارگان کے غلبے کی وجہ سے بڑے بحرانوں اور رکاوٹوں سے گزرے گا۔

آرُوڈھ پد کیا ہے؟

جیمنی جیوتش کا یہ میدان سب سے زیادہ مشہور و معروف ہے خاص کر نوجوان طلبہ میں (کیونکہ اکیسویں صدی میں “انٹرنیٹ ویدک آسٹرولوجی” کا فروغ جن نئے استادوں کے زیر سایہ ہوا وہ جیمنی کے معاملے میں حد درجہ تجرباتی واقع ہوئے)۔ بدقسمتی سے غلط ہاتھوں شہرت کا نقصان یہ ہوا کہ آرُوڈھ لگن اور دیگر پد لگن سے نت نئے مطالب اور تجرباتی معنی جڑ گئے۔ جن کا اصل جیمنی تعلیمات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ انٹرنیٹ میں 100 میں سے 90 آرٹیکل اور وڈیوز میں جب آپ آروڈھ لگن (AL)  کا حوالہ دیکھیں گے تو ساتھ تاثر (perception) اور دنیاوی عکس (worldly_image) کا لفظ نظر آئے گا۔ یہ گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں مشہور ہونے والے غلط تشریحی الفاظ ہیں۔ سن 2001 سے پہلے چھپی کسی اور جیوتش کی کتاب، کسی تحقیقی مضمون میں آپ کو آروڈھ لگن (AL)  کے معنی تاثر (perception) اور دنیاوی عکس (worldly_image) کے نہیں ملیں گے۔

سن 1901 سے سن 2000 تک ہندوستان میں سیکڑوں قابل محققین، ماہرین اور مترجمین گزرے ہیں۔ جنھوں نے جیمنی پر لکھا بھی ہے۔آپ V. Subrahmanya Sastri کو پڑھ لیں۔ آپ C.G.Rajan کو پڑھ لیں۔ آپ M. Ramakrishna Bhat کو پڑھ لیں۔ آپ B.S.Rao کو پڑھ لیں۔ آپ B.V.Ramanکو پڑھ لیں۔ آپ R.Santhanam کو پڑھ لیں۔ آپ C.S.Patelکو پڑھ لیں۔ آپ Iranganti Rangacharya کو پڑھ لیں۔ آپ Madhura Krishnamurthi Sastri کو پڑھ لیں۔ آپ K.N.Rao کو پڑھ لیں۔ یہ سب سکہ بند محققین اور ماہرین نجوم کے نام ہیں۔ ان میں سے کسی عالمِ نجوم نے آروڈھ لگن (AL)  کو تاثر (perception) اور دنیاوی عکس (worldly image) کے معنوں میں بیان نہیں کیا (تو پھر غلط تشریخ مشہور کیوں ہوئی؟ یہ جاننے کے لیے اس مضمون کے آخری حصے کا مطالعہ کیجیے)۔ پہلے صحیح معنی پر غور کرتے ہیں۔

سنسکرت میں آروڈھ (ārūḍha) کے اصل لفظی معنی ہیں “چڑھا ہوا”، “طلوع ہوتا ہوا”، “اونچائی پر”، “پہاڑی ٹیلے پر”، “اونچی نشست پر”۔ اس کا درست تلفظ ” آرُوڈھ” یا “آرُوڈھا” ہے۔ اردوھا نہیں۔

آروڈھ (ārūḍha)  کا لفظ جیوتش کے تین مختلف میدانوں کی تین مختلف تکنیکوں کا نام بھی ہے۔ ان تین میدانوں کے نام ہیں:

(1) عام پرشن کنڈلی میں آروڈھ،

(2) اشٹ منگلا فال کنڈلی میں آروڈھ، اور

(3) جیمنی جیوتش کے مطابق جنم کنڈلی میں آروڈھ ۔

ان تینوں جگہ آروڈھ (ārūḍha) کا لفظ متبادل طالع کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پرشن میں سائل کے رُخ سے متبادل طالع کے استخراج کے لیے۔ اشٹ منگلا میں بذریعہ قرعہ متبادل طالع کے استخراج کے لیے۔ اور جیمنی جیوتش میں اصل طالع کے مالک سیارہ کی نسبت متبادل طالع اخذ کے لیے۔ اس کے علاوہ چندرکال ناڑی میں بھی آروڈھ لگن کو متبادل طالع کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

جیمنی نے اپنے سوتروں میں آروڈھ لگن کو “پد” (Pada) کہا ہے۔ سنسکرت میں “پد” کے لفظی معنی ہوتے ہیں قدم یا مقام۔ جیمنی کا یہ انتخاب بہت بامعنی ہے۔

واضح رہے کہ جیمنی کے اس “پد” کا نچھتروں کے پد (یعنی چرن) سے کوئی تعلق نہیں۔ جیسے راشی کنڈلی کے جنم لگن (پہلے گھر) کے لیے آروڈھ نکالا جاتا ہے، ویسے ہی بقیہ گھروں کے لیے آروڈھ ممکن ہیں۔ آج کل سوفٹ ویئر میں آروڈھ پد کے لیے AL, A2, A3,… کے مخفف استعمال کیے جاتے ہیں۔ بعض سوفٹ ویئر میں انھیں P1, P2, P3,… یا پھر 1P, 2P, 3P,… کے مخفف سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ JHora سوفٹ ویئر میں بائی ڈیفالٹ، تمام گھروں کے آروڈھ پد دیے ہوتے ہیں۔ جبکہ Parashara’s Light میں Pada نام کے تحت علیحدہ کنڈلی دستیاب ہے۔ آپ کسی بھی مخفف کو ترجیح دیں۔ اس سے مقصدیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ صرف اظہار کے مختلف طریقے ہیں۔

جیمنی سوتر میں تمام بارہ کے بارہ گھروں کے لیے آروڈھ بیان نہیں کیے گئے۔ صرف اہم معاملات کے لیے دو تین “پد” (Pada) کا حوالہ دیا ہے۔ تاہم مترجمین اور شارحین نے بارہ گھروں سے منسوب پدوں کے نام کچھ اس طرح بیان کیے ہیں۔

یہ سب متبادل (alternate) طالع اور متبادل مشتقی (derivative) طالعین کی طرح ہیں۔ متبادل طالع سے وہ تمام امور دیکھے جاسکتے ہیں، جو آپ اصل طالع پیدائش (جنم لگن) سے دیکھتے ہیں۔ جب اصل طالع پیدائش سے کوئی معاملہ کلی طور پر واضح نہ ہو، تب لامحالہ متبادل طالع دیکھا جاتا ہے۔ تاکہ زیادہ بہتر تجزیہ کرکے یقینی نتائج تک پہنچا جاسکے۔ چونکہ آرڈوھ لگن بھی ایک قسم کا متبادل طالع ہے۔ اس مقام سے وہ تمام معاملات دیکھے جاسکتے ہیں جو آپ لگن سے دیکھتے ہیں۔

آروڈھ کے حوالے سے جیمنی نے سب سے زیادہ اہمیت دو مقامات کو دی ہے: پد (Pada) اور اُپ پد (Upapada)۔ پد سے مولود کے اپنے بارے میں اضافی معلومات (مثلاً نفع، نقصان، شہرت، صلاحیت، علم و ہنر، بیماری وغیرہ)۔ جبکہ اُپ پد (Upapada) کو بنیاد بناکر مختلف گھروں سے مولود کی بیوی، بچوں، بہن بھائیوں اور زیرکفالت افراد کے بارے میں آگہی ملتی ہے۔

آرُوڈھ کی تخمین اور مثالیں

جیمنی سوتر کے حد درجہ اختصار کی وجہ سے کئی معاملات پر ایک سے زائد آرا پائی جاتی ہیں۔ اس لیے آروڈھ نکالنے کے لیے دو تین معروف طریقے وجود میں آگئے۔ لیکن ان سب کے پس پردہ اصول ایک ہی ہے، صرف مشروط جزیات کا فرق ہے۔

اصول: کسی گھر کا مالک سیارہ اپنے گھر سے جتنے خانے دور ہو، اتنے مزید خانوں کی دوری پر آروڈھ ہوگا۔ آروڈھ صرف پہلے سے پہلے؛ دوسرے سے دوسرے؛ تیسرے سے تیسرے وغیرہ کو نہیں کہتے۔ کیونکہ یہاں گھر سے مالک کی دوری اور پھر مالک سے اتنی مزید دوری کو گنا جاتا ہے۔

اسے سمجھنے کے لیے پہلے گھر یعنی جنم لگن کی مثال لیتے ہیں۔ فرض کریں جنم لگن سرطان (Can) میں ہے، جس کا مالک قمر Mo پانچویں گھر عقرب میں بیٹھا ہے۔ چونکہ مالک اپنے گھر سے پانچ خانوں کی دوری پر ہے۔ اس لیے پہلے گھر کا آردڈھ نکالنے کے لیے قمر Mo کے قابض مقام عقرب سے پانچ مزید خانوں کی گنتی کی جائے گی۔ جو کچھ اس طرح ہوگی: عقرب ← قوس ← جدی ← دلو ← حوت۔ یعنی عقرب (Sco) سے پانچواں خانہ حوت (Pis) بنا۔ اس لیے یہاں برج حوت آروڈھ لگن ہوگا۔  آردڈھ لگن (AL) کو پد لگن (Pada_Lagna) بھی کہتے ہیں۔

دوسری مثال میں فرض کریں کہ طالع ثور (Tau) ہے۔ جس کی مالک زہرہ  Ve دوسرے گھر جوزا (Gem) میں ہے۔ چونکہ گھر کا مالک اپنے گھر سے دو خانوں کی دوری پر ہے۔ اس لیے اس کے مقامِ قبضہ یعنی جوزا سے دو خانوں کا فاصلہ ناپیں گے۔ جوزا سے دوسرا خانہ سرطان بنتا ہے۔ اس لیے یہاں آروڈھ لگن سرطان (Can) ہوگا۔

ایک اور مثال لیں۔ فرض کریں جنم لگن دلو (Aqu) ہے۔ جس کا مالک شنی Sa گیارھویں گھر قوس (Sag) میں ہے۔ یہاں آردڈھ لگن (AL) کے لیے گیارھویں گھر قوس سے مزید گیارہ گھر گنیں گے۔ جواب میزان (Lib) آئے گا جو آروڈھ لگن قرار پائے گا۔

اوپر دی گئی مثالوں میں ہم نے طالع (جنم لگن) کا آروڈھ معلوم کیا۔ اسی طرح باقی گھروں کے آروڈھ یعنی پد نکالے جاسکتے ہیں۔ سہولت کے لیے تمام گھروں کے آروڈھ نکالنے کی گنتی یہ ہے۔

• اگر مالک سیارہ اپنے گھر میں یعنی پہلے گھر (1st) میں بیٹھا ہو تو آروڈھ پد اُسی پہلے گھر (1st) میں ہوگا۔
• اگر مالک سیارہ اپنے گھر سے دوسرے گھر (2nd) میں بیٹھا ہو تو آروڈھ پد تیسرے گھر (3rd) میں ہوگا۔
• اگر مالک سیارہ اپنے گھر سے تیسرے گھر (3rd) میں بیٹھا ہو تو آروڈھ پد پانچویں گھر (5th) میں ہوگا۔
• اگر مالک سیارہ اپنے گھر سے چوتھے گھر (4th) میں بیٹھا ہو تو آروڈھ پد ساتویں گھر (7th) میں ہوگا۔
• اگر مالک سیارہ اپنے گھر سے پانچویں گھر (5th) میں بیٹھا ہو تو آروڈھ پد نویں گھر (9th) میں ہوگا۔
• اگر مالک سیارہ اپنے گھر سے چھٹے گھر (6th) میں بیٹھا ہو تو آروڈھ پد گیارھویں گھر (11th) میں ہوگا۔
• اگر مالک سیارہ اپنے گھر سے ساتویں گھر (7th) میں بیٹھا ہو تو آروڈھ پد پہلے گھر (1st) میں ہوگا۔
• اگر مالک سیارہ اپنے گھر سے آٹھویں گھر (8th) میں بیٹھا ہو تو آروڈھ پد تیسرے گھر (3rd) میں ہوگا۔
• اگر مالک سیارہ اپنے گھر سے نویں گھر (9th) میں بیٹھا ہو تو آروڈھ پد پانچویں گھر (5th) میں ہوگا۔
• اگر مالک سیارہ اپنے گھر سے دسویں گھر (10th) میں بیٹھا ہو تو آروڈھ پد ساتویں گھر (7th) میں ہوگا۔
• اگر مالک سیارہ اپنے گھر سے گیارھویں گھر (11th) میں بیٹھا ہو تو آروڈھ پد نویں گھر (9th) میں ہوگا۔
• اگر مالک سیارہ اپنے گھر سے بارھویں گھر (12th) میں بیٹھا ہو تو آروڈھ پد گیارھویں گھر (11th) میں ہوگا۔

غور کریں اس روایتی طریقے کے مطابق آروڈھ پد صرف مذکر گھروں (1st, 3rd, 5th, 7th, 9th, 11th) میں پڑتا ہے۔ مذکر گھر، نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔

آروڈھ کی عملی مثال۔ جنم لگن جدی (Cap) ہے۔ جس کا مالک زحل Sa نویں گھر سنبلہ (Vir) میں بیٹھا ہے۔ اس لیے یہاں سے مزید نو خانوں کی گنتی کی جائے گی۔ سنبلہ (Vir) سے نو خانے پر برج ثور (Tau) ہے، جو آروڈھ ہو گا۔

چونکہ یہاں آروڈھ لگن (AL) ثور (Tau) خالی ہے، اور اس پر کسی سیارے کی نظر (راشی درشٹی) نہیں۔ اس لیے صرف اس مقام سے مولود کے اپنے بارے میں بہت زیادہ معلومات نہیں مل سکتیں۔ تاہم آروڈھ سے ساتویں گھر یعنی خانہ زوج میں چار سیارگان بمشول آروڈھ لگن کا مالک زہرہ موجود ہے جو عائلی زندگی کی اہمیت کی جانب اشارہ ہے۔ اس زائچہ میں آروڈھ (AL) کے برعکس جنم لگن اور کارکانش (Karakamsa) زیادہ بہتر آگہی دے سکتا ہے۔

جیمنی نے آروڈھ پد (AL) سے گیارھویں گھر سے دھن لابھ (شری منتھا یوگ) جبکہ بارھویں گھر سے غربت (درِدر یوگ) بیان کیے ہیں۔ بہت سے طلبہ، راشی اور نوانش دیکھے بغیر براہِ راست جیمنی کے ان یوگوں سے ابتدا کردیتے ہیں۔ جو زائچہ شناسی کی درست ترتیب نہیں۔ یاد رہے کہ جیمنی جیوتش تجزیے کا اضافی رُخ فراہم کرتا ہے۔

مذکورہ بالا مثال میں ثور آروڈھ لگن (AL) سے گیارھواں گھر حوت (Pis) خالی ہے۔ اس پر صرف زحل Sa کی راشی درشٹی ہے۔ دوسری جانب غربت اور نقصان کے بارھویں گھر یعنی حمل (Ari) پر آٹھ سیارگان (بذریعہ راشی درشٹی) ناظر ہیں۔ کتابی انداز سے تو یہ غربت، اخراجات اور نقصان در نقصان کی دلیل ہیں۔ اس کے برعکس حقیقت یہ کہ مولود کافی امیر ہے۔ صاحبِ اولاد ہے۔ اعلیٰ گاڑیوں اور جائیداد پر تصرف ہے بلکہ زندگی کی ہر آسائش میسر ہے۔ وجہ؟ کیونکہ آروڈھ لگن کے گیارھویں گھر کو دیکھنے سے قبل، جنم لگن سے گیارھواں گھر کا تجزیہ کیا جائے۔ اس زائچہ میں جنم لگن جدی (Cap) سے گیارھویں گھر عقرب (Sco) میں چار سیارے (شمس، قمر، زہرہ اور عطارد) بیٹھے ہیں۔

کیندر میں قبضے سے متعلق استثنا

آروڈھ لگن اور دیگر پد لگن تخمین کرنے کے لیے بعض ماہرین استثنا (exception) کو زیر غور لاتے ہیں۔ اس استثنائی اصول کے مطابق پہلے گھر اور ساتواں گھر میں، آروڈھ نہیں آسکتا۔ یہ تبھی ممکن ہے جب لگن کا مالک لگن سے کسی بھی کیندر استھان میں بیٹھا ہو۔

• اگر لگن کا مالک، پہلے گھر یعنی لگن میں ہی بیٹھا ہو تو آروڈھ لگن، دسویں گھر میں پڑے گا۔
• اگر لگن کا مالک، ساتویں گھر میں بیٹھا ہو تو یہاں بھی آروڈھ لگن، دسویں گھر میں پڑے گا۔
• اگر لگن کا مالک، چوتھے گھر میں بیٹھا ہو تو آروڈھ لگن، چوتھے گھر میں پڑے گا۔
• اگر لگن کا مالک، دسویں گھر میں بیٹھا ہو تو آروڈھ لگن، چوتھے گھر میں پڑے گا۔

جیمنی سوتر میں مذکورہ بالا استثنا کی وضاحت موجود نہیں۔ پرانے مترجمین کی بڑی تعداد نیل کنٹھ کی رائے کو مانتے ہوئے استثنا کو قبول نہیں کرتی۔ نئے تراجم میں ایک دو سوتروں کی تشریح پر اختلاف ہے۔ آر سنتھانم اور سجے رتھ آروڈھ کے لیے استثنا پر زور دیتے ہیں۔ آج کل سوفٹ ویئر کی ڈیفالٹ سیٹنگ میں عموماً یہی طریقہ دیا ہوتا ہے۔ تاہم آپ اسے بدل سکتے ہیں۔

بعض شارحین (مثلا اِرنگانتی رنگاچاریا) کے مطابق، مذکورہ بالا استثا صرف ذوجسدین بروج (Gem, Vir, Sag, Pis) کے لیے ہیں، کیونکہ وہ چاروں باہم تربیع (mutual_kendra) میں واقع ہوئے ہیں، اور باہم ایک دوسرے کو (بذریعہ راشی درشٹی) ناظر ہیں۔ کیندر کے استثنا پر ایک اور رائے بھی ہے۔ بعض ماہرین (مثلاً سی ایس پٹیل) کے مطابق جنم لگن میں آروڈھ ممکن ہے، تاہم ساتویں گھر میں نہیں۔

اس بابت میں اب تک خود کسی صریح نتیجے پر نہیں پہنچا ہوں۔ یہ آپ کی مرضی ہے کہ آروڈھ اور پد نکالنے کے لیے کس طریقے کو ترجیح دیتے ہیں۔

روایتی نکتہ نطر سے آروڈھ لگن اور دیگر گھروں کے پد لگن صرف راشی کنڈلی (D1 Rasi) کے لیے نکالے جاتے ہیں۔ کیونکہ جیمنی سوتر میں ذیلی زائچوں (d-charts) کے اندر آروڈھ لگن اور دیگر پد کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔ ہر ذیلی زائچہ کے اندر اس کے تمام گھروں کے آروڈھ پد نکالنا حالیہ دور کی بدعت ہے۔ جس کی وجہ نت نئے کمپیوٹر سوفٹ ویئر اور ایپس کے وسیع تر آپشن ہیں۔ جیمنی سیکھنے کے ابتدائی مراحل میں اس تجرباتی اُپچ سے گریز کیا جائے تو بہتر ہے۔ تاکہ بیکار کی الجھن سے بچا جاسکے۔

آروڈھ لگن اور دیگر پد لگن کے حوالے سے ایک اور اہم نکتہ راہو کیتو کی بروجی ملکیت (sign-lordship) کے حوالے سے ہے۔ آج کل کچھ سوفٹ ویئر کے ڈیفالٹ آپشن میں دلو (Aqu) کا حاکم راہو، اور عقرب (Sco) کا حاکم کیتو درج ہوتا ہے۔ یہ جیمنی جیوتش کی روایت نہیں۔ جیمنی کے مستند ماہرین اور شارحین کے مطابق یہ استثنا (exception) صرف چر دشا کے لیے ہے، آروڈھ پد گننے کرنے کے لیے نہیں ہے۔ آروڈھ پد نکالنے کے لیے دلو (Aqu) کا مالک شنی Sa ہے، اور عقرب (Sco) کا مالک منگل Ma ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اپنے آسٹرولوجی سوفٹ ویئر کی ترجیحات (Preferences) اور ترتیب (Settings) پر نظرثانی کرلی جائے۔ تاکہ غلط العام روش سے بچا جاسکے۔

اُپ پد

زائچہ میں یہ ایک اہم پد (مقام) ہے۔ اُپ پد (Upapda) کو انگریزی مخفف UL سے بھی ظاہر کیا جاتا ہے۔ جیمنی سوتر کے مطابق اُپ پد (UL)، آروڑھ لگن (AL) کے پیچھے ایسے چلتا ہے جیسے باپ کے نقشِ قدم پر اس کا بیٹا۔ یہاں بیشتر مترجمین اور شارحین نے پیچھے، بعد اور نقش قدم سے مراد بارھواں گھر لیا۔ اس لیے بارھویں گھر کے آروڈھ کو اُپ پد لگن (UL) کہا جاتا ہے۔ جبکہ بعض مفسرین نے اس سے مراد دوسرے گھر کے آروڈھ کو لیا۔ کیونکہ دوسرے گھر کا برج، پہلے گھر کے فوری بعد طلوع ہوتا ہے۔

اس حوالے سے تیسری علمی رائے بھی موجود ہے۔ جس کے مطابق اگر جنم لگن مذکر برج (Ari, Gem, Leo, Lib, Sag, Aqu) میں ہو تو اُپ پد بارھویں گھر کا آروڈھ ہوتا ہے۔ اور اگر جنم لگن مؤنت برج (Tau, Can, Vir, Sco, Cap) ہو تو اُپ پد دوسرے کا آروڈھ ہوتا ہے۔ یہ قابلِ غور رائے ہے۔

اُپ پد نکالنے کا طریقہ بعینیہ ویسا ہی ہے جیسا آروڈھ نکالنے کا ہوتا ہے۔ جنم لگن دلو (Aqu) کی مثال لیتے ہیں۔ اس سے بارھواں گھر برج جدی (Cap) بنتا ہے، جس کا مالک شنی Sa ہے۔ فرض کریں شنی Sa برج ثور (Tau) میں بیٹھا ہے۔ چونکہ مالک شنی Sa اپنے گھر جدی (Cap) سے پانچ خانے دور ثور (Tau) میں ہے۔ اس لیے برج ثور (Tau) سے پانچ گھر گنیں گے۔ نتیجہ برج سنبلہ (Vir) آئے گا۔ اس لیے سنبلہ اُپ پد (UL) بنے گا، جس کا مالک عطارد Me ہے۔

اُپ پد (UL) کس مقصد کے لیے دیکھا جاتا ہے؟ جواب جیمنی سوتر کے باب اول کے ربع چہارم میں موجود ہے۔ اُپ پد (Upapada) کو بنیاد بناکر مختلف گھروں سے مولود کی بیوی، بچوں، بہن بھائیوں اور اہل خانہ کے بارے اضافی معلوم حاصل کی جاتی ہیں۔ جیمنی نے اُپ پد (UL) کے باب میں بیوی کے خاندانی پس منظر اور بیماریوں پر کئی یوگ بیان کیے ہیں۔ اولاد اور بہن بھائیوں کی حیات و ہلاکت کا بھی تذکرہ ہے۔ تاہم اُپ پد کے حوالے سے مولود کے والدین سے متعلق وضاحت موجود نہیں۔

یہاں ایک اور لطیف فرق زیر غور رہے۔ اُپ پد (UL) اور بارھویں گھر کو آج کل سیکس سے جوڑ دیا گیا ہے۔ یہ روایتی جیوتش کے نکتہ نظر سے صحیح نہیں۔ ہندی نجوم میں بارھویں گھر سے شائن (śayana) یعنی نیند (sleep) اور استراحت (rest) منسوب ہے۔ سنسکرت زبان میں لفظ شائن (śayana) مجامعت یا سیکس کے معنوں میں نہیں آتا۔ سنسکرت میں مجامعت (سیکس) کے لیے درجنوں اور الفاظ موجود ہیں، جو جیوتش شاستروں بشمول جیمنی سوتر میں لکھے ہیں۔

بالفرض محال، اگر اُپ پد (UL) صرف سیکس اور ازدواجی تعلقات سے منسوب ہے، تو جیمنی نے اُپ پد (UL) کو حوالہ بناتے ہوئے مولود کے بہن، بھائی، بیٹی، بیٹا کے بارے میں کیوں لکھا؟ نیز جیمنی سوتر میں اُپ پد (UL) سے بیوی کی بیماری اور جسمانی عوارض کا ذکر زیادہ ہے۔ جیمنی سوتر کے اس باب میں نہ تو سیکس کا ذکر ہے، اور نہ ہی روحانیت کا۔

ضمنی طالعین

جیمنی سوتر میں کئی ضمنی طالعین (subsidiary_ascendants) کا حوالہ بھی موجود ہے۔ جو دراصل ریاضیاتی نقاط (points) ہیں۔ مثلاً ورڻ لگن (VL)، ہورا لگن (HL)، گھٹی یا گھڑی لگن (GL)، بھاؤ لگن (BL)، دِویا لگن (DL)، شری لگن (SL) وغیرہ۔ ان میں سے بیشتر طالع یا نقاط خصوصی یوگ دیکھنے کے کام آتے ہیں۔ انھیں انفرادی طور پر کسی دائرہ زندگی سے منسوب نہیں ٹھہرایا گیا۔ ان کی تخمین کے لیے ریاضی پر تھوڑا بہت عبور ہونا چاہیے۔ تاہم جدید سوفٹ ویئر اور موبائیل ایپس میں ان کی فہرست موجود ہوتی ہے۔

ادوارِ بروج (راشی دَشا)

جیمنی جیوتش کی ایک اور انفرادیت “دَشا” (دور) ہے۔  جیمنی جیوتش میں سیارگان یا منازل پر مبنی دَشاوؤں کا زیادہ رواج نہیں۔ یعنی ونشوتری اور نچھتر کی بنیاد پر دشائیں نہیں دیکھی جاتیں۔ بلکہ راشی (بروج) کی بنیاد پر دَشائیں نکالیں جاتی ہیں۔ انھیں بالعموم راشی دَشا (Rāśi Daśā) کہتے ہیں۔ جیمنی سوتر کا ترجمہ اور تشریح کرنے والوں نے درجنوں دشائیں بیان کی ہیں۔

سب سے معروف دشا کا نام چر دشا (Chara Dasa) ہے۔ K.N. Rao نے چر دَشا پر تحقیق کرکے کئی معلوماتی کتابیں مرتب کی ہیں۔ ان کا مطالعہ نئے طلبہ کے لیے مفید رہے گا۔ جیمنی سوتر میں بیان کی گئی بیشتر دَشائیں تعینِ عمر اور موت کا وقت جاننے کے لیے مخصوص ہیں۔ اہم راشی دَشاوؤں میں شُول دَشا (Shula Dasa)، نِرائن شُول دَشا (Niryana Shula Dasa)، اور نوانش دَشا (Navamsa Dasa) شامل ہیں۔

جیمنی سوتر کے چند معروف یوگ

• کارکانش (یعنی آتما کارک کے نوانش) سے مولود کا جسم اور رنگ روپ دیکھنا چاہیے۔ (JS 1:4, 42)
• کارکانش کے برج سے منسوب فوائد، نقصانات اور رجحانات، خاص کر بیماریاں معلوم کی جائیں۔ (JS 1:2, 2-13)
• کارکانش میں دو یا زائد سیارگان ہوں تو صاحبِ زائچہ “کول مُکھیا” یعنی خاندان برادری کا سردار بنے گا۔ (JS 1:4, 42)
• کارکانش سے تیسرے اور چھٹے گھروں میں اگر فطری نحس سیارگان ہوں تو مولود بہادر لڑاکا فطرت ہوگا۔ (JS 1:2, 2-64)
• کارکانش سے دوسرے اور آٹھوں گھروں میں اگر مساوی تعداد میں فطری نحس سیارگان ہوں تو کیمدرم یوگ یعنی غربت، تنگی اور ناکامی کا سامنا ہوگا (خاص جب ان نحسین پر قمر کی راشی درشٹی ہو)۔ (JS 1:2, 119-120)
• اگر شمس Su کارکانش میں (آتما کارک کے ہمراہ) ہو، یا کارکانش سے دوسرے گھر میں ہو تو مولود “راج کاریا” یعنی حکمرانی اور سرکاری امور سے دلچسپی رکھے گا۔ (JS 1:2, 14)
• اگر روشن قمر Mo اور زہرہ Ve کارکانش میں (آتما کارک کے ہمراہ) ہو، یا کارکانش سے دوسرے گھر میں ہوں تو مولود “بھوگی” یعنی عیش و عشرت کا دلدادہ ہوگا، اور “وِدیا جیوی” یعنی علم و ہنر کا معاش اپنائے گا۔ (JS 1:2, 15)
• اگر مریخ Ma کارکانش میں (آتما کارک کے ہمراہ) ہو، یا کارکانش سے دوسرے گھر میں ہو تو مولود “دھاتو وادی” یعنی دھات، مصالحے، ادویات وغیرہ؛ “کونٹا یُدھو” یعنی ہتھار چلانے کا ماہر اور “واہنی جیوی” یعنی آگ سے منسلک ذرائع سے روٹی روزی کمائے گا۔ (JS 1:2, 16)
• اگر عطارد Me کارکانش میں (آتما کارک کے ہمراہ) ہو، یا کارکانش سے دوسرے گھر میں ہو تو مولود بیوپار، کپڑے سازی، مجسمہ سازی یا وکالت سے متعلق ذرائعِ معاش اختیار کرے گا۔ (JS 1:2, 17)
• اگر مشتری Ju کارکانش میں (آتما کارک کے ہمراہ) ہو، یا کارکانش سے دوسرے گھر میں ہو تو مولود علم و دانش یا مذہبی ویدوں سے متعلق طرزِ معاش اپنائے گا۔ (JS 1:2, 18)
• اگر زہرہ Ve کارکانش میں (آتما کارک کے ہمراہ) ہو، یا کارکانش سے دوسرے گھر میں ہو تو مولود سرکاری عہدے دار یا مشیر بنے گا، نیز طویل عمر تک پُرشہوت رہے گا۔ (JS 1:2, 19)
• اگر زحل Sa کارکانش میں (آتما کارک کے ہمراہ) ہو، یا کارکانش سے دوسرے گھر میں ہو تو مولود آبائی پیشوں، یا اپنے اختیار کردہ روایتی طریقوں کے مطابق زندگی گزارے گا۔ (JS 1:2, 20)
• اگر راہو Ra کارکانش میں (آتما کارک کے ہمراہ) ہو، یا کارکانش سے دوسرے گھر میں ہو تو مولود تیرانداز (ٹیکنیکل ایکسپرٹ)، چور لٹیرا، زہر سے دوا بنانے کا ماہر ہو گا۔ (JS 1:2, 21)
• اگر کیتو Ke کارکانش میں (آتما کارک کے ہمراہ) ہو، یا کارکانش سے دوسرے گھر میں ہو تو مولود فیل بان ہوگا یعنی ہاتھیوں سے متعلق کاروبارِ حیات رکھے گا یا چور ہوگا۔ (JS 1:2, 22)
• کارکانش سے پانچویں گھر میں اگر قمر-مشتری ہوں، یا قمر-زہرہ ہوں، یا قمر-عطارد ہوں مولود صاحبِ کتاب عالم اور مصنف ہوگا۔ (JS 1:2, 102-104)
• اگر قمر Mo اور زہرہ Ve کارکانش سے چوتھے گھر میں ہوں تو مولود پرآسائش جائیداد رکھے گا، یا اسکی رہائش گاہ کثیر المنزلہ عمارت ہوگی۔ (JS 1:2, 45)
• اگر قمر Mo اور مشتری Ju کارکانش سے ساتویں گھر میں ہوں، یا ساتویں کو ناظر ہوں تو مولود کی بیوی “سُندری” یعنی حسین و جمیل ہوگی۔ (JS 1:2, 57)
• اگر مریخ Ma کارکانش سے ساتویں گھر میں ہو تو بیوی “وِلنگی” یعنی کسی جسمانی نقص یا معذوری کا شکار ہوگی۔ (JS 1:2, 60)
• اگر زحل Sa کارکانش سے ساتویں گھر میں ہو تو بیوی عمر میں بڑی، یا کمزور و بیمار یا سرد مہر ہوگی۔ (JS 1:2, 59)
• اگر راہو Ra کارکانش سے ساتویں گھر میں ہو تو “ودھوا” یعنی بیوہ یا مطلقہ سے ازدواجی تعلق ہوگا۔ (JS 1:2, 58)
• اگر کارکانش سے ترکون (یعنی پانچویں اور نویں) گھروں میں نحس سیارے ہوں تو ایسا شخص عملیات پر دسترس رکھے گا۔ اگر پانچویں نویں میں قابض نحسین کو سعد سیارے بھی دیکھیں تو اپنے خفیہ علم سے لوگوں کے کام آئے گا۔ (JS 1:2, 83-85)
• اگر آردوڈھ لگن سے گیارھویں گھر میں سیارے قابض یا ناظر ہوں تو “شری منتھا” یوگ یعنی دلیلِ مال و آسائش ہے۔ اگر گیارھویں میں قابض یا ناظر سیارگان فطری سعد ہوں یا شرف یافتہ، یا اپنے بروج کے ہوں؛ اور بارھواں گھر خالی ہو تو آسان اور نیک ذرائع سے بہت سا مال و زر ملنے کی دلیل ہے۔ (JS 1:3, 2, 5)
• اگر آروڈھ لگن سے دوسرے گھر میں قمر Mo، مشتری Ju، اور زہرہ Ve، موجود ہوں، یا دوسرے گھر میں شرف یافتہ سیارے موجود ہوں تو “شری منتھا” یوگ ہے یعنی مولود صاحبِ مال و زر ہوگا۔
• اگر آروڈھ لگن سے بارھویں گھر میں سیارے قابض و ناظر ہوں تو مولود خرچیلا اور مالی تنگی کا شکار رہے گا۔ (JS 1:3, 6)
• اگر آروڈھ لگن اور اس سے ساتواں گھر ارگل (argala) رکھتے ہوں (بغیر ورودھ ارگل کے) تو مولود خوش قسمت ہوگا۔ اگر ارگل بنانے والے فطری سعد سیارے ہوں تو بہت دھن دولت کا مالک ہوگا۔ (JS 1:3, 22-23)
• اگر کارکانش (یا آروڈھ لگن) سے چھٹے، آٹھویں، بارھویں گھروں میں سعد سیارے ہوں جبکہ دوسرے، چوتھے، پانچویں میں نحس سیارے ہوں تو “درِیدر یوگ” یعنی تاعمر غربت اور تنگی کی دلیل ہے۔ (JS 1:3, 34)
• اگر کارکانش (یا آروڈھ لگن) سے دوسرے 2nd، چوتھے 4th، اور پانچویں 5th گھر میں مساوی تعداد یا مساوی قوت میں سیارگان موجود ہوں، یا ان گھروں میں صرف سعدین بیٹھے ہوں تو “راج یوگ” یعنی دلیل حکمرانی و سلطانی ہے۔ (JS 1:3, 30)

جیمنی کے نام پر تجرباتی اور من گھڑت نظریات

سن 1997-98 میں انٹرنیٹ پر ایک نئی لہر کا آغاز ہوا۔ جس کے روحِ رواں سنجے رتھ (Sanjay_Rath) تھے۔ ان کا آبائی تعلق بِہار سے ہے، لیکن رہائش اور جیوتش کا کاروباری مرکز “جگناتھ سینٹر” دلی میں ہے۔ ہندوستان کے دیگر روایتی مترجمین اور مفسرینِ نجوم کے برخلاف سنجے رتھ کافی جدت پسند تھے۔ انجینئر ہونے کے باعث انٹرنیٹ کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے تھے۔ نائن الیون سے پہلے اور بعد کے برسوں میں سجے رتھ کے آن لائن گروپ کو مغربی دنیا میں زبردست پذیرائی ملی۔ (یہ راقم اس کا چشم دید گواہ ہے)۔ اپنے آن لائن گروپ کی وجہ سے جلد ہی سنجے رتھ نے بھارت، امریکا، یوروپ اور روس کے نوجوانوں کا حلقہ عقیدت پیدا کرلیا۔ کیونکہ وہ فلسفیانہ نکات اور روحانی موضوعات کو نجوم سے جوڑنے میں مہارت رکھتے تھے۔ اس گروپ کے ایڈمن سنجے رتھ کے لائق شاگرد پی وی آر نرسمہاراؤ (P.V.R. Narasimharao) تھے، جو ریاضی اور کمپوٹر پروگرامنگ کے ماہر تھے۔ جیوتش کا مشہور سوفٹ ویئر “جے ہورا (JHora)” انھی کی تخلیق ہے۔ نرسمہاراؤ نے اپنے سوفٹ ویئر کا نام بھی ساتھی استاد سجنے رتھ کے کاروباری مرکز جگناتھ کے نام پر رکھا۔

ان دونوں میں سنجے رتھ زیادہ ہوشیار تھے۔ انھوں نے جگناتھ سینٹر کے نام سے دنیا بھر میں مراکز کھول لیے۔ اس کے بعد بھاری رقوم کے عوض “جیمنی اسکالر” کے نام سے لاکھوں فیس بٹورنے لگے۔ شہرت اور دولت کی آمد کے ساتھ نزاع فطری عمل ہے۔ کچھ عرصے بعد سنجے رتھ اور نرسمہاراؤ اختلاف پیدا ہوگئے۔ سنجے رتھ نے نرسمہاراؤ قطع تعلق کے بعد نیا گروپ، نئی ویب سائٹس بنالیں۔ بلکہ اپنے شاگردوں کو مفت سوفٹ ویئر “جے ہورا”کے بجائے مہنگے سوفٹ “شری جیوتی اسٹار” خریدنے پر اُکسانے لگے۔ اب بھی سنجے رتھ دنیا بھر میں بھاری فیسوں کے عوض جیمنی کورس اور سیمینار منعقد کرواتے ہیں۔ سادہ مزاج نرسمہاراؤ پہلے سب کو مفت پڑھاتے رہے اور پھر مایوس ہوکر منتر اور ھَوَن کی روحانیت میں مبتلا ہوگئے۔

بلا شبہ یہ دونوں احباب (سنجے رتھ اور نرسمہاراؤ) اکیسویں صدی کے نوجوانوں کو جیوتش سے روشناس کرانے کا کریڈٹ رکھتے ہیں۔ لیکن یہ دونوں اصل جیمنی جیوتش کے بگاڑ کے ذمے دار بھی ہیں۔

سنجے رتھ اور نرسمہاراؤ نے اپنے آن لائن گروپ اور آن لائن کلاسوں کے توسط سے جیمنی جیوتش کی جو تشریح پیش کی وہ بہت حد تک من گھڑت اور گمراہ کن ہے۔ بدقسمتی سے نئے دور کے طلبہ جیوتش کی اصل زبان یعنی سنسکرت سے زیادہ آگاہی نہیں رکھتے۔ اور نہ ہی جیمنی کے دیگر تراجم پڑھنے پر مائل ہیں۔ اس لیے انھوں نے سنجے رتھ اور نرسمہاراؤ سے جو کچھ سیکھا اور پڑھا اسے آگے بڑھاتے گئے۔

بعد میں انٹرنیٹ گروپ، بلاگ اسپاٹ اور پھر فیس بک کے توسط سے نقل در نقل کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ اور یوں جیمنی سے منسوب تنجیمی بدعتیں عام ہوگئیں۔ بدقسمتی سے آج بھی انٹرنیٹ پر موجود بیشتر مواد (بلاگ، آرٹیکل، وڈیوز) سنجے رتھ کے جگناتھ سینٹر کے پیش کردہ گمراہ کن اصولوں پر مبنی ہے۔

من گھڑت نظریہ: آرُوڈھ لگن (AL) مولود کا تاثر اور عکس (perception) ہے۔ حقیقتاً غلط فہمی۔

من گھڑت نظریہ: ہورا لگن (HL) زائچہ میں دھن دولت (wealth) سے منسوب ہے۔ حقیقتاً غلط فہمی۔

من گھڑت نظریہ: گھڑی لگن (HL) اختیارات اور طاقت (power) سے منسوب ہے۔ حقیقتاً غلط فہمی۔

من گھڑت نظریہ: آتم کارک (AK) سے روحانیت (spirituality) منسوب ہے۔ حقیقتاً غلط فہمی۔

من گھڑت نظریہ: نارائن (Narayana) دَشا سب سے اعلیٰ درجہ رکھتی ہے۔ حقیقتاً غلط فہمی۔

آرُوڈھ لگن (AL) سے تاثر و تصویر (پرسپشن، امیج) منسوب کرنا سنجے رتھ کے جگناتھ سینٹر اور نرسمہاراؤ کا ایجاد کردہ نکتہ نظر ہے، جو بدقسمتی سے زبانِ زدِ خاص و عام ہوگیا ہے۔ آرُوڈھ سے ‘مایا’ اور ‘ستیا’ کی کہانی جوڑ دینا بھی تجرباتی اُپچ ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں سوال آئے کہ عمران صاحب! آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں، اسکا کیا ثبوت ہے۔ تو سب سے بڑا ثبوت خود “جیمنی سوتر” کی اصل کتاب ہے۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ اس کا مطالعہ ضرور کیجیے۔ حقیقت آشکار ہوجائے گی۔ ہوسکتا ہے چودہ طبق روشن ہوجائیں۔

“جیمنی سوتر” کے 936 سُوتروں میں کہیں بھی آرُوڈھ  کے لیے تاثر و تصویر کے الفاظ  استعمال نہیں ہوئے۔ نہ جلی انداز میں، نہ خفی انداز میں۔ نہ اشاراتاً نہ وضاحتاً۔ بلکہ ماضی قریب تک یہ الفاظ اور یہ منسوبات کسی اور مترجم نے اختیار نہیں کی۔ جسے شک ہو وہ اصل کتاب پڑھ لے۔ تاریخی طور پر سیکڑوں علمائے نجوم نے جیمنی سوتر کے تراجم اور تفاسیر لکھی ہیں۔ لیکن سن 90 کی دھائی سے پہلے چھپنے والی کسی بھی جیمنی سوتر کے ترجمے اور تفسیر میں یہ نسبت اور یہ تشریح موجود نہیں۔

سنجے رتھ کے جگناتھ سینٹر اور نرسمہاراؤ کے مطابق ہر ذیلی زائچہ (divisional_charts) کے اندر تمام گھروں کے آرُوڈھ پد نکال سکتے ہیں۔ اور ان سے موضوعاتی پیش گوئی کرسکتے ہیں۔ یہ کافی حد تک تجرباتی معاملہ ہے۔ جیمنی جیوتش میں آرُوڈھ پد صرف راشی چارٹ (rasi chart) تک محدود ہے۔ اصل سنسکرت جیمنی سوتر میں کسی ذیلی زائچے (d-chart) کے لیے کسی آرُوڈھ پد کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔ ایسا نہیں کہ آپ D4 چارٹ میں A4 نکال کر اپنی جائیداد کی تصویر دیکھنے بیٹھ جائیں۔ یا D16 چارٹ سے موٹر سائیکل اور کرولا گاڑی کا موازنہ کرتے رہیں۔ یا D10 چارٹ میں A10 سے اپنی نوکری کا تاثر اور پروفیشن کا پرسپشن دیکھیں۔ اس تجرباتی تکنیک کے نتائج اکثر مبہم بلکہ گمراہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود جانے انجانے آن لائن آرٹیکلز، بلاگز اور یوٹیوب وڈیوز کے ایسے نظریات کا فروغ جاری ہے۔ کیونکہ لکھنے والا مکھی پہ مکھی مار کے نقل کررہا ہے۔ اور پڑھنے والے نے اصل جیمنی سوتر کے مطالعے کی زحمت ہی نہیں کی۔

جیمنی سے ہٹ کر کچھ ایسی تکنیکیں بھی متعارف کروائیں گئیں جو سراسر علمی سرقے بازی (plagiarism) ہے۔ مثلاً آپ میں سے بہت سے افراد نے تتھی پرویش Tithi_Pravesha کا نام سنا ہوگا۔ یہ تکنیک گذشتہ دو ہزار سال کے دوران کبھی بھی جیوتش کا حصہ نہیں رہی۔ کسی شاستر میں اس کا ذکر نہیں۔ کسی مستند مترجم نے اس کا حوالہ نہیں دیا۔ بلکہ سن 2001 سے پہلے کسی جدید ہندوستانی مصنف نے اسے جیوتش کا حصہ قرار نہیں کہا۔ کیوں؟ کیونکہ یہ جدید مغربی یونانی نجوم (ماڈرن ویسٹرن آسٹرولوجی) کی تکنیک ہے۔ تمام اچھے ویسٹرن آسٹرولوجی کے سوفٹ ویئر میں Lunar_Phase_Return نام سے آپشن موجود ہوتا ہے۔ تتھی پرویش دراصل اِسی لونر فیز ریٹرن (Lunar_Phase_Return) کا سرقہ اور چربہ ہے۔ بس نام بدل کر اسے “پرم پرا” (خاندانی روایات) کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ لیکن آج بھی انڈین آسٹرولوجی پڑھنے اور پڑھانے والے افراد اس حقیقت سے آگاہ نہیں۔ کیونکہ وہ اصل ماخذ کا مطالعہ نہیں کرتے۔ اور جن چنیدہ افراد نے مطالعہ کیا ہے، وہ مغربی یونانی نجوم سے آگہی نہیں رکھتے۔

میں بارہا احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر جیوتش سیکھنا ہے تو سنسکرت کتب کے معیاری تراجم کا مطالعہ کریں۔ حالیہ برسوں میں لکھے گئے غیر مستند آرٹیکلز اور غیر معیاری وڈیوز پر انحصار نہ کریں۔ ورنہ آپ جانے انجانے غلط روش کو آگے بڑھانے کا سبب بنیں گے۔

چند قارئین کو میری یہ چشم کشا تحریر شاید گراں گزرے۔ خاص کر وہ قارئین جنھوں نے جیمنی سوتر کو اصل ماخذ کے بجائے انٹرنیٹ کے آن لائن گروپ، سطحی آرٹیکلز اور یوٹیوب وڈیوز سے سیکھا ہے۔ غالب گمان ہے کہ مذکورہ بالا من گھڑت نظریات پر مبنی اصول ہوں گے یا اس سے متاثر ہوں گے۔ غلط روش پر نظر ثانی کرنا اور اسے بدلنا آسان نہیں ہوتا۔ ان سے بس اتنی التجا ہے کہ اصل جیمنی سوتر کا مطالعہ ضرور کیجیے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں